بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ادائیگی وسعت کے باوجود تاخیر کرنے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے میرا قرض دینا ہے،ایک تو اس نے مجھے دھوکا دیا ہے،اور پھر کبھی قسمیں کھا کر اور قرآن کا واسطہ دے کر کبھی ایک دن بتاتا ہے ،اور کبھی دوسرا دن بتاتا ہے،اور بعد میں فون بھی بند کردیا،اور دوسرے لوگوں کو غلط بیانی کرکے دشمنیاں پیدا کررہا ہے،اور اس کی فیملی والے بھی اسی طرح ٹال مٹول کرتے ہیں ،اس کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ میرا قرض ادا کرے ،لیکن قرض واپس نہیں کرتا ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس آدمی کو مارنا جائز ہے یا نہیں ہے؟اب اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟شرعی طور پر راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا  ظلم ہے، اور ایسے شخص کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے شرعاً ظالم کہا جائے گا، نیز  استطاعت کے باوجود اگر کوئی قرض نہ اتارے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس وعید کا مستحق نہ بن جائے جس کے مطابق مقروض شہید بھی ہوجائے تو قرض کے وبال سے اسے خلاصی نہیں ملے گی، جب کہ شہید کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے، تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔

صورتِ مسئولہ میں اگر چہ مقروض کا ذکر کردہ طرزِ عمل شرعاً ظلم اور ناجائز ہے،لیکن اس کو مارنا  جائز نہیں ہے،کیوں کہ کسی مسلمان کا ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں شدید ترین گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ  تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے جو" حقوق اللہ "ہے، وہاں اس میں ایک مسلمان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ "حقوق العباد"سے تعلق رکھتا ہے، شریعت نے کسی مسلمان کے ناحق قتل کرنے پر  سزائیں  بھی مقرر کی ہیں،لہذا سائل کا مقروض کو مارنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے،تاہم سائل  مقروض کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرسکتا ہے،لہذا مقروض کو چاہیے کہ  جلد از جلد قرض کی ادائیگی کرے،اگر  اپنی زندگی میں ادا نہ کیے تو کل قیامت والے دن دینا ہوگا،اور وہ بہت ہی مشکل ہے،وہاں نیکیوں سے محرومی ہوگی۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَوْفُوا۟ بِٱلْعُقُودِ."(سورة المائدة: 1)

ترجمہ: "اے ایمان والو! عہدوں کو پورا کرو۔"

(بیان القران، ج: 2، ص: 21، ط: مکتبہ غزنوی کراچی)

روح البیان میں ہے:

"{وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ} سواء جرى بينكم وبين ربكم أو بينكم وبين غيركم من الناس، والإيفاء بالعهد والوفاء به هو القيام بمقتضاه بالمحافظة عليه."

(روح البیان ،ج: 5،ص: 155 ،ط: دار الفکر)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ أي الذي تعاهدون عليه الناس والعقود التي تعاملونهم بها، فإن العهد والعقد كل منهما يسأل صاحبه عنه "إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا" أي: عنه."

(تفسير ابن كثىر،ج:5،ص: 68،ط: دار الكتب العلمية)

قرآن مجید میں ہے :

"{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (92) وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (93)} [النساء: 92، 93]"

"ترجمہ : اور کسی مؤمن کی شان نہیں کہ وہ کسی مؤمن کو (ابتداءً) قتل کرے،  لیکن غلطی سے، اور جو شخص کسی مؤمن کو غلطی سے قتل کردے تو اس پر ایک مسلمان غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کردیا جائے، مگر یہ کہ وہ لوگ معاف کردیں،  اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو تمہارے مخالف ہیں اور وہ شخص خود مؤمن ہے تو ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا، اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں معاہدہ ہو تو خون بہا ہے جو اس کے خاندان والوں کو حوالہ کردیا جائے اور ایک غلام یا لونڈی مسلمان کا آزاد کرنا،  پھر جس شخص کو نہ ملے تو متواتر دو ماہ کے روزے ہیں بطریق توبہ کے جو اللہ کی طرف سے (مقرر ہوئی) ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔

 اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا ہے  اور اس پر اللہ تعالیٰ غضب ناک ہوں گے اس کو اپنی رحمت سے دور کردیں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے۔(از بیان القرآن)"  

صحیح بخاری  میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: آية ‌المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."

(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج: 1، ص: 16، ط: دار طوق النجاة بيروت)

"ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاۓخیانت کرے۔"

(نصر الباری، باب علامات المنافق، ج: 1، ص: 285، ط: مکتبۃ الشیخ کراچی)

مسلم شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة؛إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال (‌مطل ‌الغني ظلم، إذا أتبع أحدكم على ملء فليتبع)."

(کتاب المساقاۃ،باب تحریم مطل الغنی،ج3،ص1197،ط:دار إحياء التراث العربي)

وفيه أيضا:

"عن أبي هريرة؛أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤتى بالرجل الميت، عليه الدين، فيسأل (هل ‌ترك ‌لدينه من قضاء؟) فإن حدث أنه ترك وفاء صلى عليه، وإلا قال (صلوا على صاحبكم)، فلما فتح الله عليه الفتوح قال (أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن توفي وعليه دين فعلي قضاؤه، ومن ترك مالا فهو لورثته)."

(کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثته، ج: 3، ص: 1237، ط: دار إحياء التراث العربي)

حدیث پاک میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "أتدرون ‌ما ‌المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له، ولا متاع فقال: إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار ."

(صحيح مسلم ،كتاب البرو الصلة و الآداب ،باب تحريم الظلم،ج:8،ص: 18،رقم الحديث: 2581،ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھاکہ تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد  دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔“

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں