ایک شخص نے قرضہ لیا، جس شخص سے قرضہ لیا تھا وہ فوت ہوگیا ہے، جس شخص نے قرضہ لیا وہ اگر قرضہ دینے جاتا ہے تو اس میت کے رشتے دار سود خور ہیں اور بڑھا چڑھا کر قرضہ مانگتے ہیں، مثلاً قرض لینے والے نے پانچ ہزار روپے قرض لیا تھا، لیکن میت کے رشتے دار کہتے ہیں کہ تم نے پانچ ہزار نہیں، بلکہ پچاس ہزار لیا تھا، اب قرضہ لینے والا شخص اس میت کی طرف سے وہ رقم صدقہ کرسکتا ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے قرض لی ہوئی رقم کو میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز نہیں ہے،کیوں کہ میت کے انتقال کے بعد اس کے مال میں اس کے شرعی ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے اور کسی کے لیے کسی کے مال میں اس کی رضامندی کے بغیر تصرف کرنا جائز نہیں کہ ہے۔
تاہم اگر اس کو اس بات کا خوف ہے کہ قرض کہہ کر دینے کی صورت میں ورثاء زیادہ رقم کا مطالبہ کریں گے تو وہ ہر وارث کو اس کا حصہ قرض کے بجائے کسی اور نام مثلا ہدیہ (گفٹ) کے نام سے دے دےیعنی مرحوم کے شرعی ورثاء کے حصے معلوم کر کے ہر ایک کے حصہ میں جتنی رقم بنتی ہو وہ اس کو یہ کہہ کر ےدے کہ یہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"الإرث لغة: بقاء شخص بعد موت آخر بحيث يأخذ الباقي ما يخلفه الميت. وفقهاً: ما خلفه الميت من الأموال والحقوق التي يستحقها بموته الوارث الشرعي."
(الفصل الأول، تعریف علم المیراث،10/ 7697،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100639
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن