ایک صاحب کے میرے پاس 14 ہزار روپے ہیں ،اور کئی سال ہو گئے ہیں، اوراس صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، اور یہ بھی علم نہیں کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے ،اور اس کی بیوی کا پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا، اور یہ بھی علم نہیں کہ اس کی اولاد ہے یا نہیں تو اب اس کی رقم کا کیا کروں؟براہِ کرام شرعی طور پر راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے جس سے قرض لیا تھا اس کے ورثاء کو حتی الامکان معلوم کرنے کی کوشش کرے،اگر اُن کے ورثاء کا علم ہوجائے تو مذکورہ رقم اُن کو ادا کردے،لیکن اگر تلاش بسیار کے باجود اُن کے بارے میں معلوم نہ ہوسکے تو وہ رقم اُس شخص کی طرف سے کسی مستحق زکوۃ کو دی جائے، تاہم اگر اس شخص کی طرف سے کسی مستحق زکوۃ کو دینے کے بعد اگر اُس کے ورثاء معلوم ہوجائیں تو سائل اُن کو صدقہ کرنے کی اطلاع دے دے ،اگر وہ صدقہ کی اجازت نہ دیتے ہوں تو سائل کو وہ رقم واپس کرنا ضروری ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله)....(فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها."
(كتاب اللقطة،ج: 4، ص: 280+ 282، ط: سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144406101164
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن