بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض خواہ کا مقروض کے علاوہ کسی اور سے قرض کا مطالبہ کرنے اور مقروض کا غیر مملوکہ چیز میں تصرف کرنے کا حکم


سوال

میرے  بھائی نے ایک آدمی سے چالیس لاکھ روپے لیے اور اس سے کہا کہ اگر آپ کو  تین مہینے بعد پیسے واپس  نہ کروں تو آپ  بدلے میں میرا گھر لے لینا، اس کے بعدنہ بھائی نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے ایسا کچھ معاہدہ کیا ہے اور نہ قرض دینے والے نے ہمیں کچھ بتایا،جب کہ درحقیقت مذکورہ گھر  ہمارے والد صاحب کی میراث ہے جس میں تمام ورثاء کا حصہ ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ قرض خواہ ہم لوگوں سے آکر مطالبہ کررہا ہے کہ تمہارے بھائی نے تین مہینے کا وقت لیا تھا اور اب نو مہینے گزر چکے ہیں لہٰذا مجھے گھر دے دو۔

سوال یہ ہے کہ  کیا قرض خواہ کا مذکورہ بھائی (جس نے قرض لیا تھا)کے علاوہ بقیہ بھائیوں سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے؟ اور کیااس کا مذکورہ گھرکی سپردگی کا مطالبہ بھی جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ مذکورہ مکان  آپ کے والد صاحب کی میراث ہے اور اس میں تمام ورثاء کا اپنے اپنے حصوں کے مطابق حق ہے اس لیے آپ کے بھائی کے لیے  مذکورہ مکان  میں صرف اپنے حصے کے  بقدر تصرف کرنے کی اجازت ہے،قرض خواہ کواپنے حصے کےساتھ ساتھ بقیہ ورثاء  کے  حصوں کو بھی ان کی اجازت کے بغیر قرض کے بدلے لے لینے کا کہنا آپ کے بھائی کے لیےجائز نہ تھا، کیوں کہ شرعی اعتبار سے کسی کی ملکیت میں شامل چیز کا اس کی رضامندی کے بغیر استعمال کرنا یا کسی اور کو دے دینا جائز نہیں ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں  آپ  کے بھائی کا مذکورہ عمل درست نہیں، نیزنہ تو قرض خواہ کا مقروض بھائی کے بدلے آپ لوگوں سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا جائز ہے، اور نہ ہی آپ لوگوں پر مقروض بھائی کے قرض کی ادائیگی کچھ لازم  ہے ۔

شرعاً قرض خواہ مذکورہ مکان میں سے صرف اتنے ہی حصے کو لینے کا حق دار ہے جتنا مقروض بھائی کا حق بنتا ہے،اگر اتنے حصے سے اس کا قرض وصول ہوجاۓ تو ٹھیک ورنہ بقیہ قرض کی ادائیگی  مقروض بھائی پر ہی لازم ہوگی اور قرض خواہ بھی اسی سے مطالبہ کرنے کا حق دار ہوگا۔

سنن نسائی میں ہے:

"عن ‌مسروق، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ألفينكم ترجعون بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض، لا يؤخذ الرجل بجريرة أبيه ولا ‌بجريرة ‌أخيه»."

(كتاب تحريم الدم،تحريم القتل،127/7، ط: الکمتبة التجارية الكبري)

شرح المجلۃ میں ہے:

"لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملک الغیر بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه وإن فعل کان ضامنا."

"لا یجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي وإن أخذہ ولو علی ظن أنه ملکه وجب علیه ردہ."

(المقالة الثانیة في بیان القواعد الکلیة الفقھیة،رقم المادۃ: 96،97 ،51/1، ط:رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101874

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں