بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ لازم ہونے کے لیے نصاب کی مقدار کا بیان / قرض خواہ کے لیے زکاۃ لینے کا حکم


سوال

۱۔ زکوٰۃ کےلیے صاحب نصاب کی مقدار (ملکیت) کتنی ہونی چاہیے ؟

۲۔ اگر کوئی ایسا شخص جس کے پاس 4 سے 5 لاکھ روپے ہوں اور وہ رقم کسی اور کے پاس رکھواتا ہوتاکہ اس بندہ کو زکوٰۃ کی ادائیگی کرنا نہ پڑے،تو وہ بندہ کسی اور کے نام پر زکوٰۃ (نقدی رقم، راشن) لے سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی عاقل،بالغ شخص پر زکاۃ لازم ہونے کےلیے اس کے پاس ضروریات اور قرض وغیرہ سے زائد ساڑھے سات تولہ سونایاساڑھے باون تولہ چاندی،یا اس کے برابر ایسی نقدی یا مالِ تجارت جس پر قمری مہینوں کے اعتبار سے سال گزرچکاہو ٗہوناضروری ہے۔

جس شخص کی ملکیت میں  ضرورت سے زائد چاریا پانچ لاکھ روپے ہوں اور وہ یہ رقم کسی کے پاس رکھوادے،چاہےبطورِ امانت رکھوائے یابطورِ قرض،بہرصورت ایسا کرنےسے اس شخص سے زکاۃ کی فرضیت اس سے ساقط نہ ہوگی،جب یہ خود صاحبِ نصاب ہے تو اس کےلیے(یعنی اپنی ذات کےلیے) زکاۃ لیناحرام ہوگا۔

تبيين الحقائق  میں ہے:

"قال رحمه الله: (وشرط وجوبها العقل والبلوغ والإسلام والحرية، وملك نصاب حولي فارغ عن الدين وحاجته الأصلية نام، ولو تقديرا) أي شرط لزوم الزكاة علما، وعملا، وأراد بالوجوب الفرضية؛ لأنها ثبتت بدليل مقطوع به، وهو الكتاب والسنة، وإجماع الأمة، وهذه الجملة شروطها أما العقل والبلوغ فلأن التكليف لا يتحقق دونهما ... وأما كونه حوليا أي تم عليه حول فلقوله عليه الصلاة والسلام: لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول؛ ولأن السبب هو المال النامي لكون الواجب جزء من الفضل لا من رأس المال لقوله تعالى:ويسألونك ماذا ينفقون قل العفو، أي الفضل، والنمو إنما يتحقق في الحول غالبا أما المواشي فظاهر، وكذا أموال التجارة لاختلاف الأسعار فيه غالبا عند اختلاف الفصول فأقيم السبب الظاهر، وهو الحول مقام المسبب، وهو النمو، وأما كونه فارغا عن الدين، وعن حاجته الأصلية كدور السكنى وثياب البذلة، وأثاث المنازل وآلات المحترفين وكتب الفقه لأهلها فلأن المشغول بالحاجة الأصلية كالمعدوم."

(ص:٢٥٢،ج:١،کتاب الزکاۃ،ط:دار الکتاب الإسلامي)

الفتاوي الهنديةمیں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات ثم في تقويم عروض التجارة التخيير يقوم بأيهما شاء من الدراهم والدنانير إلا إذا كانت لا تبلغ بأحدهما نصابا فحينئذ تعين التقويم بما يبلغ نصابا."

(ص:١٧٩،ج:١،كتاب الزكاة،الباب الثالث،الفصل الثاني،ط:دار الفكر،بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506100593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں