بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض خواہ کا مقروض سے کھانے پینے اور آنے جانے کا کرایہ لینے کاحکم


سوال

اگر کوئی مقروض مقررہ وقت تک قرض ادا نہ کرے، پھر قرض خواہ اس کے پیچھے آتا جاتا ہے تو  مقروض سے کھانے پینے اور آنے جانے کے کرایہ کے پیسے لینا جائز ہےکہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئلہ میں قرض خواہ،  قرض دار سے قرض دی گئی رقم سے زائد وصول نہیں کرسکتا، خواہ کرایہ کے نام پر لے یا کسی اور نام پر، البتہ اگر قرض دار قرض چکانے میں تنگ کر رہا ہو،  یا بار بار چکر لگواتا ہو، تو یہ از روئے حدیث ظلم ہے، جس پر آخرت میں سخت سزا کا اندیشہ ہے، لہذا قرض دار کو قرض کی ادائیگی میں باوجود وسعت کے ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

" أن مذہب ذلک الامام أن قبول رفق المدین حرام کالربا."

(کتاب البیوع،باب الربا، الفصل الثالث، ج:5،ص:1926،ط: دار الفكر)

مشکوۃ المصابیح  میں ہے:

"(عن أبي هريرة )أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "مطل ‌الغني ‌ظلم."

ترجمہ:"رسول  کریم ﷺ نے فرمایا: صاحبِ استطاعت کا  (ادائیگیِ قرض میں) تاخیر کرنا ظلم ہے۔" (مظاہر حق)

(كتاب البيوع، باب الإفلاس والنظائر، الفصل الأول، ج:1، ص:251، ط:قديمي)

فتاوی شامی   میں ہے:

"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه ،وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام.

(باب المرابحة و التولیة، فصل فی القرض،ج:5 ،ص: 166، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں