بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کے طور پر دی گئی رقم کے عوض نفع لینا حرام ہے


سوال

2003 میں میرے والد صاحب نے میرے میراث والے حصے کی رقم میرے بھائی کو کاروبار کرنے کے لیے دی، یہ ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم تھی اور یہ اسے اس کے اپنے کاروبار کرنے کے لیے دی تھی نہ کہ میرے لیے یا اپنے لیے، لیکن اسے یہ کہا کہ ہر ماہ تمہیں اپنے کاروبار میں جو نفع ہو تو اس میں سے 2 ہزار روپے اسے (سائلہ) کو دے دیا کرو، میرے بھائی نے خود بھی اس بات کا مجھ سے ذکر کیا، انہوں نے اس وقت ان پیسوں سے 6 بھینسیں خریدیں اور ایک مہینہ صرف مجھے 2 ہزار روپے دیے، پھر کہا کہ میں ان پیسوں (ہر مہینہ میرا نفع جو 2 ہزار روپے بنتا ہے) کی آپ کی طرف سے کمیٹی ڈال دیتا ہوں، پھر 2004 میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا اور کافی عرصہ گزر گیا لیکن میں نے اپنے بھائی سے مروۃً اپنے پیسوں (ڈیڑھ لاکھ روپے) اور نفع (ہر ماہ 2 ہزار روپے جس کی بھائی نے کمیٹی ڈال دی تھی) کا مطالبہ نہیں کیا، اب جب مطالبہ کیا تو بھائی کا کہنا ہے کہ والد صاحب نے وہ رقم آپ کا حصہ کہہ کر دی تھی اور آپ صرف اسی کی مستحق ہیں نفع کی نہیں، پوچھنا یہ ہے کہ میں اپنے بھائی سے مذکورہ رقم (ڈیڑھ لاکھ روپے) اور نفع کا مطالبہ کرسکتی ہوں یا نہیں؟ اس وقت ڈیڑھ لاکھ روپے کی ویلیو زیادہ تھی، جس میں 6 بھینسیں آسکتی تھیں تو کیا اب میں 6 بھینسوں کی مالیت کا مطالبہ کرسکتی ہوں؟ کیا میرے ڈیڑھ لاکھ روپے میرے بھائی پر قرض ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے والد نے سائلہ کے حصے کی رقم ڈیڑھ لاکھ روپے  اس کے بھائی کو چونکہ اس کے اپنے بھینسوں کے کاروبار کرنے کے لیے دی تھی تو یہ رقم اس کے ذمہ شرعاً قرض ہوئی، پھر سائلہ کے والد کا اس کے بھائی سے یہ کہنا: "کہ ہر ماہ تمہیں اپنے کاروبار میں جو نفع ہو تو اس میں سے 2 ہزار روپے اسے (سائلہ) کو دے دیا کرو"، یہ اپنے قرض کے عوض نفع حاصل کرنا ہوا، یہ شرعاً سود کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے سائلہ کے لیے یہ نفع وصول کرنا بھی شرعاً حرام ہے، لہٰذا سائلہ صرف اپنے ڈیڑھ لاکھ روپےکی رقم کا اپنے بھائی سے مطالبہ کرسکتی ہے جو قرض کے طور پر سائلہ کے والد نے اس کے بھائی کو دی تھی،سائلہ مذکورہ نفع کا اور آج کل کے حساب سے 6 بھینسوں کی مالیت کا اپنے بھائی سے مطالبہ نہیں کرسکتی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي یرجع  إلی نفس القرض، فهو أن لایکون فیه جر منفعة، فإن کان لم یجز، نحو: ما إذا أقرضه دراهم غلة علی أن یرد علیه صحاحاً أو أقرضه وشرط شرطاً له فیه منفعة، لما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أنه نهی عن قرض جر نفعاً، ولأن الزیادۃ المشروطة تشبه الربا، لأنها فضل لايقابله عوض، والتحرز عن حقیقة الربا وعن شبهة الربا واجب."

( کتاب القرض، فصل شرائط ركن القرض،  ج:7، ص:395، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144306100314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں