ایک دوکاندار نے کسی سے بیس ہزار روپے بطور قرض کے لیے۔ پھر قرض دینے والا شخص اپنے قرض کے بدلے اس کی دوکان سے سامان لیتا رہا ۔اب اس کا قرضہ مکمل ہوچکا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ دوکاندار نے اس شخص کو جو سامان دیا ہے بازاری ریٹ پر اور اس سے اس کو جو نفع ملا ہے کیا یہ منافع اس کے لیے جائز ہیں؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے دکاندار کو بیس ہزار روپے کا قرض دے کر اس سے بیس ہزار روپے کا سامان خرید لیا، تو یہ صورت جائز ہے۔
موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:
"وقال أبو حنيفة: له أن يأخذ بقدر حقه إن كان نقدًا أو من جنس حقه، وإن كان المال عرضًا لم يجز؛ لأن أخذ العوض عن حقه اعتياض، ولاتجوز المعاوضة إلا بالتراضي، لكن المفتى به عند الحنفية جواز الأخذ من خلاف الجنس."
(الموسوعة الفقهية الكويتية،استيفاء حقوق العباد،ثانيا: استيفاء حقوق العباد المالية: استيفاء الحق من مال الغير بصفة عامة: 4/153، ط: دارالسلاسل - الكويت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100669
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن