بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کے ادائیگی کو طلاق کے ساتھ معلق کرنا


سوال

 ایک شخص میرے 24 ہزار روپے کا مقروض تھا، کافی ٹال مٹول کے بعد اس نے 22 مئی کی شام تک 24 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا، میں نے کہا میں تم سے ایک قسم لیتا ہوں ،تم کہو اگر 22 تاریخ کی شام تک میں نے تمہارے پیسے نہیں دیےتو میری بیوی کو تین طلاق پڑیں گی ،اس نے کہا "ہاں" میں نے کہا بولو ،اگر میں 22 تاریخ کو تمہارا پیسہ نہیں دوں ،تو میری بیوی کو تین طلاق، اس نے کہا "ہاں"، میں نے کہا "ہاں" نہیں، پوری بات بولو کہ اگر میں22 تاریخ تک پیسے نہیں دوں، تو میری بیوی کو تین طلاق، اس نے کہا میں نے "ہاں" تو بولا ہے، میں نے کہا اگر تم دے دو گے، اور تم کو اعتبار ہے تو بولنے میں کیا پریشانی ہے، اس نے کہا بالکل،بالکل صحیح، میں نے "ہاں" بول دیا، سب دل میں آگیا تو ہو گیا، میں نے کہا تم دل سے بول رہے ہو تو پوری بات بول دو، ابھی نہیں پڑےگی (طلاق)،یہ تو مسئلہ ہے،اگر تم 22 تاریخ تک دے دو گے تو نہیں پڑے گی اور اگر نہیں دو گے تو طلاق پڑے گی، اب اگر تم کہہ رہے ہو کہ میں اس کے خلاف نہیں کروں گا تو پھر بولو،تو اس نے کہا "میں نے کہاں منع کیا ہے؟ میں ہاں بول تو رہا ہوں" میں نے کہا میں جیسے بول رہا ہوں ویسے بولو، اس نے کہا "جو آپ نے بولا میں نے سنا میرے دل کے اندر آیا میں نے ہاں کیا"،میں نے کہا آپ کو پورا بولنے میں کوئی پریشانی ہے؟ اس نے کہا ہاں پریشانی ہے، یہاں پر اور لوگ بھی ہیں، اس کے بعد اس نے 22 تاریخ تک پیسے نہیں دیے،اور وعدہ خلافی کی،اس صورت میں اس کی بیوی کو طلاق پڑے گی یا نہیں؟راہ نمائی فر مائیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعۃً  مذکورہ شخص  نے مقروض سے یہ جملہ کہا کہ ’’تم کہو اگر 22 تاریخ کی شام تک میں نے تمہارے پیسے نہیں دیےتو میری بیوی کو تین طلاق پڑیں گی‘‘  اور اس نے کہا:"ہاں" اور پھر اس نے 22 تاریخ  تک رقم ادا نہیں کی تو اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،نکاح ختم ہو چکا ہے اور اب رجوع کرنا یا دوبارہ رجوع کرنا درست نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"جماعة يتحدثون في مجلس فقال رجل منهم: من تكلم بعد هذا فامرأته طالق ثم تكلم الحالف طلقت امرأته لأن كلمة (من) للتعميم والحالف لا يخرج نفسه عن اليمين فيحنث....(قوله ‌ثم ‌تكلم الحالف) سكت عما إذا تكلم غيره والظاهر أنه لا يقع لأن تعليق المتكلم لا يسري حكمه إلى غيره إلا إذا قال الغير وأنا كذلك مثلا."

‌‌كتاب الطلاق‌‌، باب طلاق غير المدخول بها، مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به، ج:3، ص: 295، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"واذا أضافه إلی الشرط، وقع عقیبَ الشرط اتفاقاً، مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار، فأنت طالق".

(باب الأیمان في الطلاق،الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة إن و إذا و غیرها، ج:1، ص:488، ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً:

"رجل قال لمديونه: امرأتك طالق إن لم تقض ديني فقال المديون ناعم فقال له الرجل: قل نعم فقال: نعم وأراد جوابه فاليمين لازمة وإن دخل بينهما انقطاع كذا في خزانة المفتين."

(باب الأیمان في الطلاق،الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة إن و إذا و غیرها، ج:1، ص:443، ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً:

"رجل قال لآخر: والله لتفعلن كذا والله لتفعلن كذا فقال الآخر: ‌نعم إن أراد المبتدئ الحلف وأراد المجيب الحلف يكون كل واحد منهما حالفا وإن نوى المبتدئ الاستحلاف ونوى المجيب الحلف فالمجيب حالف."

(باب الأیمان في الطلاق،الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا، فصل في تحليف الظلمة وفيما نوى الحالف غير ما ينوي المستحلف، ج:1، ص:443، ط: رشیدیة)

الاَشباہ والنظائر میں ہے:

"قال البزازي في فتاويه من آخر الوكالة وعن الثاني لو قال: امرأة زيد طالق وعبده حر وعليه المشي إلى بيت الله تعالى الحرام إن دخل هذه الدار.فقال زيد: نعم.كان زيد حالفا بكله."

(القاعدة الحادية عشرة: السؤال معاد في الجواب، ص:128، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں