میری بیوی سے ایک مہینہ پہلے میرا جھگڑا ہوا،اس نے کہا کہ میں نے تمہیں اپنے والد سے ایک لاکھ روپے ادھار لے کر دیے تھے،اسی طرح ان کی میراث کے چار لاکھ روپے تقریباًکچھ عرصہ پہلے میں نےآپ کو دیے تھے ،اپ مجھے یہ دونوں قرضے موجودہ سونے کے ریٹ کے حساب سے واپس کرو،اسی طرح میں پگڑی کا گھر نام کروارہاتھا تو بیو ی نے اپنی سونے کی دوچوڑیاں جو تین تولےکی تھیں مجھے دی تھیں اور میں نے وہ فروخت کر کے اس میں لگائیں تھیں ،آج وہ ان چوڑیوں کی رقم کا آج کے سونے کے ریٹ کے حساب سےمطالبہ کر رہی ہے،حالاں کہ چوڑیاں فروخت کرتے وقت ادھار کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی،باہمی رضامندی سے سب کام ہوا تھا،اس کا کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی نے اسے پانچ لاکھ روپے بطور قرض کے دیے تھے،اور قرض سونے کے ریٹ کے بڑھنے یا کم ہونے سے کم زیادہ نہیں ہوتا لہذا سائل پر صرف پانچ لاکھ روپے واپس کرنا لازم ہے،اسی طرح سائل کی بیوی نے اسے اپنی دوچوڑیاں (جو تین تولے سونا کی تھیں)سائل کو دی تھیں اورہدیہ یا شراکت کوئی صراحت نہیں ہوئی تھی تو یہ بھی بطور قرض ہو ں گی لہذ سائل پراپنی بیوی کو تین تولے سونایا اس کی موجودہ مالیت کے برابررقم واپس کرنا لازم ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا."
(كتاب القرض،فصل في شرائط ركن القرض،ج:7،ص: 395،ط:دار الكتب العلمية)
الفقه الإسلامي وأدلتهمیں ہے :
"يجب على المقترض أن يرد مثل المال الذي اقترضه إن كان المال مثلياً بالاتفاق."
(القسم الثالث،الفصل الثاني،حكم القرض،ج:5،ص: 3793،ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102624
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن