زید کی کوئلے کی ایک کان ہے ، جس سے وہ کوئلہ نکال کر فروخت کرتاہے ، کوئلہ کا ایک ڈھیر باہر بھی موجود ہے ، لیکن کچھ علاقائی تنازع کی وجہ سے اس کے فروخت کرنے میں رکاوٹ ہے ۔ (اور یہ تنازع عارضی ہے جو جرگہ ، پنچائیت سے ختم ہو جائے گا ) اب زید کو اس کان کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ، تو زید ، عمرو سے کہتا ہے کہ آپ مجھے 20 لاکھ قرض دے دو ، ان پیسوں کے بدلہ میں آپ کو یہ کوئلہ دوں گا، لیکن ابھی چونکہ تنازع چل رہا ہے ، تو آپ اس کوئلہ کو فی الحال نہیں اٹھا سکتے ؛ بلکہ جب یہ جھگڑا ختم ہوگا تو اس وقت اٹھانا ۔ اور جب یہ جھگڑا ختم ہوگا ، تو اس وقت اس کوئلہ کی ایک ٹن کی جو قیمت ہوگی ؛ اس سے ایک ہزار کم قیمت پر آپ کو یہ کوئلہ دوں گا ۔ ( مثلاً اگر ایک ٹن کی قیمت 20 ہزار ہوگی ، تو میں آپ کو 19 ہزار میں دوں گا) اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں یہ معاملہ شرعا درست نہیں ہے یہ اصلاً قرض کا معاملہ ہے اور اس قرض سے قرض دینے والے کو فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ وہ اس قرض کی وجہ سے رقم میں کمی کررہا ہے جو کہ جائز نہیں ہےبلکہ یہ سود کے زمرہ میں آئے گا۔
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".
(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م)
فتاوی شامی میں ہے:
"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".
(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101447
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن