میرا ایک چھوٹا سا کاروبار ہے جس سے میرے ماہانہ خرچ پورا ہوتا ہے، مزید یہ کہ میرے اوپر 350،000 تک قرضہ ہے جس کی ادائیگی کی کوئی بظاہر صورت موجود نہیں ہے؛ کیوں کہ میری آمدنی اور خرچ برابر ہے کبھی کبھی خرچ آمدن سے متجاوز ہوجاتاہے تو اس کے لیے میں مزید قرض لیتاہوں ۔ کیا مجھے زکوۃ کی رقم وصول کرنا جائز ہے یانہیں اور زکوۃ دینے والے کی زکوۃ اداہوجائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے کاروبار کے مالِ تجارت کی قیمتِ فروخت اتنی ہو کہ اس میں سے آپ کا قرض منہا کرنے کے بعد بقیہ رقم کی مالیت 52.5 تولہ چاندی کے بقدر ہو، تو آپ زکات نہیں لے سکتے اور اگر بقیہ رقم کی مالیت 52.5 تولہ چاندی سے کم ہو اور آپ کے پاس کوئی اور محفوظ رقم، سونا، چاندی یا مالِ تجارت نہ ہو، نیز آپ کے استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا سامان یا مال نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو اور آپ سید بھی نہ ہوں تو آپ زکات لے سکتے ہیں۔
مثلاً اگر آپ کے مالِ تجارت کی قیمتِ فروخت 370,000 روپے ہے تو قرض منہا کرکے 20,000 روپے بچتے ہیں، اس صورت میں آپ اوپر ذکر کی گئی شرائط کے مطابق زکات لے سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کا مالِ تجارت 500,000 روپے کا ہو، تو قرض منہا کرکے 150,000 روپے بچتے ہیں جو 52.5 تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہے، اس صورت میں آپ زکات وصول نہیں کرسکتے۔
اسی طرح اگر آپ کے پاس ایسا سامان (مثلًا: برتن وغیرہ ) موجود ہے جو سال بھر استعمال میں نہیں آتا تو اس کی مالیت کو بھی شامل کرکے دیکھا جائے گا کہ اس سامان اور قرض منہا کرکے باقی رہنے والی رقم وغیرہ کی مجموعی مالیت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو تو آپ زکات وصول نہیں کرسکتے۔ فقط واللہ اعلم
نوٹ: یہ ایک شرعی مسئلے کا بیان ہے، کسی خاص فرد کے لیے زکات وصول کرنے کا تصدیق نامہ نہیں ہے۔
فتوی نمبر : 144209200710
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن