بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض دے كر نفع حاصل كرنا اور بیع بالاستجرار کا حکم


سوال

 ایک کسٹمر دوکان دار ہول سیلر کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کے پاس  لاکھ روپےرکھوادیتا ہوں، لیکن مجھے آپ ہر آڈر پر ڈسکاؤنٹ دے دیں، مطلب ایک یونٹ پر سو روپے یا پانچ فیصد ایک انوائس پر، اب اس میں تین باتیں سوال طلب ہیں :

1۔ کیا اس طرح ایک لاکھ روپے لے کر ہول سیلر کا اپنے گاہگ کو مستقل یہ ڈسکاؤنٹ کی سہولت دینا جائز ہے؟

2۔ اگر کسٹمر کہے کہ میں ایک لاکھ دے رہا ہوں مجھے ایک لاکھ دس ہزار کا مال دے دیں  تو آیا یہ صورت جائز ہے؟

3۔اور اگر کسٹمر کہے کہ میں ایک لاکھ دے رہا ہوں مجھے ایک لاکھ دس ہزار کا مال دے دیں جو کہ الگ الگ وقتوں میں لیتا رہے گا کبھی پانچ ہزار اور کبھی دس ہزار تو کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ قرض دے کر اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں ایک لاکھ روپے ہول سیلر کے پاس اس شرط پر  رکھواکر اس سے مستقل ڈسکاؤنٹ کی سہولت حاصل کرنا  قرض پر نفع حاصل کرنے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

2، 3۔  مذکورہ دونوں صورتوں میں کسٹمر کا یہ شرط لگانا کہ "میں ایک لاکھ دے رہا ہوں مجھے ایک لاکھ دس ہزار کا مال دیا جائے"شرعاً ناجائز ہے، کیوں کہ یہ بیع میں ایسی شرط لگانا ہے جس میں خریدار کا نفع ہے، البتہ اگر ہول سیلر  کسٹمر کے مطالبہ کے بغیر اپنی رضامندی سے ایک لاکھ دس ہزار کا مال کسٹمر سے  ایک لاکھ روپے لے کر ایک ساتھ دے دے یا الگ الگ وقتوں میں دے دے تو یہ صورت جائز ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله کل قرض جر نفعا حرام) ای اذا کان مشروطا کما علم مما نقله عن البحر"۔

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة،فصل فی القرض،  مطلب کل قرض جر نفعا حرام، ص:166، ج:5، ط: سعید)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"قال محمد فی کتاب الصرف: ان ابا حنیفة کان یکرہ کل قرض جر منفعة، قال الکرخی: ھذا اذا کانت المنفعة مشروطة فی العقد بان اقرض غلة لیردہ علیه صحاحا او ما اشبه ذلک"۔

(کتاب البیوع، الفصل الرابع والعشرون فی القروض، ص:288، ج:9،  ط:فاروقیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا (بيع بشرط  لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا"۔

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ص:85، ج:5، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"فروع ما يستجره الإنسان من البياع إذا حاسبه على أثمانها بعد استهلاكها جاز استحسانا"

وفي الشرح: قال: في الولوالجية: دفع دراهم إلى خباز فقال: اشتريت منك مائة من من خبز، وجعل يأخذ كل يوم خمسة أمناء فالبيع فاسد وما أكل فهو مكروه؛ لأنه اشترى خبزا غير مشار إليه، فكان المبيع مجهولا ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا. اهـ"۔

(کتاب البیوع، ص:516، ج:4، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101672

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں