زید نے بکر کو 400000 روپے اس شرط پر قرض دیے کہ جب تک آپ میرا پورا قرضہ واپس نہیں کرو گے میں آپ کی ایک ایکڑ زمین آباد کروں گا، کیا یہ جائز ہے؟
واضح رہے کہ قرض دے کر اُس قرض کے بدلے مقروض سے کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے، شریعتِ مطہرہ ميں اس فائدہ کو سود کہا گيا هے، لهذا زيد كا بكر كو اس شرط پر قرضه دينا كه جب تك بكر زيد كو يه پورا قرضه واپس نه كرے زيد بكر كي ايك ايكڑ زمين آباد كرے گا، يه جائز نهيں هے۔
"وَفِي الْأَشْبَاهِ: " كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ؛ فَكُرِهَ لِلْمُرْتَهِنِ سُكْنَى الْمَرْهُونَةِ بِإِذْنِ الرَّاهِنِ."
وفي الرد:
" ( قَوْلُهُ: كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ ) أَيْ إذَا كَانَ مَشْرُوطًا، كَمَا عُلِمَ مِمَّا نَقَلَهُ عَنْ الْبَحْرِ". (166/5 )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201413
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن