بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض دے کر زائد رقم وصول کرنا


سوال

میں نے ایک آدمی سے 5  لاکھ روپے قرض لیا، اور یہ طے ہوا کہ ماہانہ 15000 روپے قسط کے طور پر ادا کیے جائیں گے، اور پھر اس کے ایک سال کے بعد دو لاکھ روپے مزید قرض لیا، اور اس میں کچھ بھی طے نہ ہوا تھا،اب آج 6 سے 7 سال کے بعد وہ آدمی یہ کہہ رہا ہے کہ اب آپ مجھے 63 لاکھ روپے ادا کرو گے،  حالاں کہ کل قرض اس نے سات لاکھ روپے دیا، کیا اس کا یہ مطالبہ درست ہے؟

وضاحت: وہ شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے کسی بینک یا بینک کے کسی آدمی سے یہ قرضہ لے کر آپ کو قرضہ دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ رقم بڑھ گئی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ قرض کے بارے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ قرض میں جتنی رقم یا جو مقدار وصول کی جائے، قرض دار پر  اتنی ہی مقدار  قرض خواہ کو واپس کرنا لازم ہوتا ہے، اب صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے سات لاکھ روپے قرض لیا ہے تو سائل پر سات لاکھ روپے کی ادائیگی ہی لازم ہے، اگر قرض خواہ زیادہ رقم  کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ سود ہے اور سود کا لین دین شرعاً حرام ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(ج:7، ص:395، كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں