بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض دار کے لیے مال ہڑپ کر جانے کا حکم


سوال

ایک بندہ میرا مقروض ہےاور اب وہ قرض ادا کرنے کےبجائے میرا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے،   میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے، ناحق مال کھانے والے پر  قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،  ایسے لوگ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں،بلکہ بعض کتبِ فقہ میں منقول ہے کہ  ناحق مال کھانے والے سے ایک دانق (جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) کے  بدلے میں اس کی سات سو مقبول  نمازیں،حق دار کو دے دی جائیں گی؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں قرض دار کے  لیے آپ کا مال ہڑپ کر جانا سراسر ظلم اور نا جائز فعل ہے۔

 آپ کو چاہیے کہ ان کو نرمی اور محبت  سے آخرت اور قبر کے عذاب سے ڈرائیں،اور رقم نہ  ملنے کی صورت میں آپ کے  لیے ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی بھی گنجائش  ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 438):

"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».

(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصاً".  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں