بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض اگر قسطوں میں وصول ہو تو اس میں زکوۃ کا حکم


سوال

ایک شخص نے 1500000 میں  گاڑی بیچ دی اور ماہانہ قسط اس گاڑی  کی رقم کی 30 سے 35  ہزار روپے آتی ہے (یعنی وصول ہوتی ہے )تو  آیا ایسے شخص پر زکو ۃ ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص اگر پہلےسے زکوۃ ادا کرتا  چلا آ رہا ہے ،تو مذکورہ تمام رقم(15لاکھ )پر بھی زکوۃ واجب گی ،لیکن چوں کہ گاڑی کی رقم قسطوں میں وصول ہو رہی ہے ،اس لیے اس شخص كے ليے یہ گنجائش ہے کہ ، جس قدر قسطیں وصول  ہوتی جائیں ،ان کی زکوۃ دیگر اموال کے ساتھ ملا کر ادا کرتا رہے ،اگر سال گزرنے كے بعد زكوة نكالے گا تو سابقہ  سال کی زكوة نكالنا بھی ضروری هو گا ،اور اگر ایک ہی مرتبه کل قرض کی رقم کی زکوۃ دے دے،خواہ پوری رقم وصول ہونے سے پہلے دے یا پوری رقم وصول ہونے کے بعد ،تو یہ بھی درست ہے ،  اس صورت ميں  بھی سابقہ سالوں کی زکوۃ نکالنا ضروری ہو گا،اوراگرمذکورہ شخص    نے پہلے كبھی  زکوۃ ادا نہیں کی(یعنی صاحب نصاب نہیں تھا)  تو چوں کہ مذکورہ رقم (1500000)سے  صاحبِ نصاب بن گیا ہے ،لہذا سال پورا ہونے کے بعد   جتنی قسطیں وصول  ہوتی جائیں ان کی زکوۃ ادا کرنا مذکورہ شخص پر  لاز م ہو گی۔

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

"أماعلی قولھما  فالدیون کلھا سواءوھی نصاب کلہ تجب فیه الزکاۃ قبل القبضإذا حال الحول لکن لایجب الأداء قبل القبض واِذا قبض شیئا منه یجب الأداء بقدر ما قبض قلیلاکان أو کثيرا......الخ."

(كتاب الزكاة ،باب زكاة الديون،ج :3 ،ص :246، ط: رشیدیة)

وفيه ايضاً :

"ویجوزتعجیل الزکاۃ قبل الحول اِذاملك نصاباعندنا."

(كتاب الزكاة ، الفصل السادس في تعجيل الزكاة، ج :3، ص :184، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: ‌قوي، ‌ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك ويعتبر ما مضى من الحول قبل."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج :2 ،ص :305 ،ط :سعید)

وفيه ايضاَ :

"واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين، وعن الدين يجوز وأداء الدين عن العين، وعن دين ‌سيقبض."

(كتاب الزكاة ،ج   :2   ،ص :270 ،ط : سعید)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

"(سوال 127)قرضہ جو قابلِ وصول ہے ،اس پر بھی زکوۃ  دی جاوے یا قرضہ کے وصول پر ؟اور وہ قرضہ جو فی الحال قابلِ وصول ہے لیکن شاید کچھ عرصہ بعد غیر قابلِ وصول ہو جائے ،یا بعض قرضہ اقساط کے ساتھ وصول ہو اس کے واسطے کیا ارشاد ہے ؟

(جواب)بعد وصولی قرضہ زکوۃ دینا  واجب ہوتا ہے ،لیکن اگر قبل از وصول دے دی جائے تو یہ بھی جائز ہے ۔جو قرضہ اب قابلِ وسول ہے اور بعد میں شاید قابلِ وصول نہ رہے اس کا بھی یہی حکم ہے جو گزرا کہ زکوۃ کا ادا کرنا واجب اسی وقت ہوتا ہے جب وصول ہو جائے لیکن  اگر فی الحال دے دے گا تب بھی درست ہے اور اگر قرض باِقساط وصول ہوتا جاوے اس کی زکوۃ ادا کرتا رہے اور اگر ایک دفع کل کی زکوۃ دے دے خواہ پہلے یا پیچھے یہ بھی درست ہے ۔"

(کتاب الزکاۃ، ج :6،ص :78، ط :دارالاِشاعت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں