بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قریہ صغیرہ میں نماز جمعہ کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں تین گاؤں ہیں : 1۔ نحقی ، 2۔ قلعہ کلے ، 3۔ یوسف خیل ۔ یہ تینوں الگ الگ گاؤں ہیں نحقی گاؤں کی آبادی 2000 سے زیادہ ہے، لیکن قلعہ کلے اور یوسف خیل کی آبادی 600 تک ہر ایک کی ہوگی، قلعہ کلے اور نحقی میں نماز جمعہ ہوتا ہے، یوسف خیل میں نہیں ہوتا، ہمارے علاقے یوسف خیل میں کوئی دار الافتاء نہیں ہے، بازار بھی 9/ 10 کلو میٹر دور ہے ، عدالت 15 / 16 کلو میٹر دور ہے ۔

اب کیا ہمارے علاقے میں نماز جمعہ ہوگی یا نہیں اور اگر کسی نے اس صورت میں تین جمعہ نہیں پڑھے تو کیا وہ حدیث کی وعید میں آۓ گا یا نہیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  یو سف خیل  گاؤں کی آبادی صرف  چھ سو  افراد پر مشتمل ہے،اور وہاں سے بازار بھی دور ہے اور ضروریات زندگی کا سامان بھی میسر اور دستیاب نہیں ہے،بلکہ وہاں کے مقامی افراد کو اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے دوسرے گاؤں کارُخ کرنا پڑتا ہے اور یہ گاؤں نحقی کے مضافات اور حدود میں شامل نہیں ہے،تو ایسا گاؤں قریہ صغیرہ کے حکم میں ہے،اور یہاں جمعہ ادا کرناجائز نہیں ہے،جمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنا ضروری ہے، لہذا  ظہر کی نماز کا حسب معمول اہتمام کیا جائے۔

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات."

(ص: ١٣٨، ج: ٢، کتاب الصلاة، مطلب في صحة الجمعة بمسجد المرجة والصالحية في دمشق، ط: ايج ايم سعيد)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"منها المصر هكذا في الكافي، والمصر في ظاهر الرواية الموضع الذي يكون فيه مفت وقاض يقيم الحدود وينفذ الأحكام وبلغت أبنيته أبنية منى، هكذا في الظهيرية وفتاوى قاضي خان وفي الخلاصة وعليه الإعتماد، كذا في التتارخانية ومعنى إقامة الحدود القدرة عليها، هكذا في الغياثية."

(ص: ١٤٥، ج: ١، کتاب الصلاة، الباب السادس عشر، ط: دارالفكر،بيروت)

"المبسوط للسرخسي"میں ہے:

"وظاهر المذهب في بيان حد المصر الجامع أن يكون فيه سلطان أو قاض لإقامة الحدود وتنفيذ الأحكام. وقد قال بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى أن يتمكن كل صانع أن يعيش بصنعته فيه ولا يحتاج فيه إلى التحول إلى صنعة أخرى وقال ابن شجاع رضي الله تعالى عنه أحسن ما قيل فيه إن أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر جامع تقام فيه الجمعة."

(ص: ٢٣، ج: ٢، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعة، ط: دار المعرفة)

"البحر الرائق"میں ہے:

"وفي حد المصر أقوال كثيرة اختاروا منها قولين: أحدهما ما في المختصر ثانيهما ما عزوه لأبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث قال في البدائع، وهو الأصح وتبعه الشارح، وهو أخص مما في المختصروفي المجتبى وعن أبي يوسف أنه ما إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم للصلوات الخمس لم يسعهم، وعليه فتوى أكثر الفقهاء وقال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه، وفي الولوالجية وهو الصحيح."

(ص: ١٥٢، ج: ٢، کتاب الصلاة، باب الجمعة، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504100197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں