بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قریہ کبیرہ میں جمعہ کاحکم


سوال

قریۂ کبیرہ میں جمعہ جائز ہے یا واجب؟

جواب

واضح رہےکہ فقہاءِ کرام نے قریہ کبیرہ میں  جمعہ قائم کرنے کے لیےجو شرائط ذکر کی ہیں، اگر  قریہ کبیرہ میں وہ تمام شرائط  پائی جائے، تو وہ قریہ کبیرہ مصر کے حکم میں ہے،اور اُس میں جمعہ  واجب ہے۔

قریہ کبیرہ میں جمعہ کی شرائط اور تفصیل جانے کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو:

گاؤں میں جمعہ کا حکم

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني ‌تقع ‌فرضا ‌في ‌القصبات ‌والقرى الكبيرة التي فيها أسواق."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ١٣٨/٢، ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي حد المصر أقوال كثيرة اختاروا منها قولين: أحدهما ما في المختصر ثانيهما ما عزوه لأبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث قال في البدائع، وهو الأصح وتبعه الشارح، وهو أخص مما في المختصر، وفي المجتبى وعن أبي يوسف أنه ما إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم للصلوات الخمس لم يسعهم، وعليه فتوى أكثر الفقهاء وقال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه، وفي الولوالجية وهو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ١٥٢/٢، ط:دار الكتاب الإسلامي)

کفایت المفتی میں ہے:

"حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول میں لفظِ مصر موجود تھا اور اشتراطِ مصر میں یہی قول حنفیہ کا ماخذ ہے، مصر اگرچہ عرف میں معروف اور معلوم المراد لفظ تھا مگر فقہائے حنفیہ نے اس کی تعریف بیان کی ہے،اور تعریفیں مختلف عبارتوں میں ہوئیں؛ اس لیے تعیین مراد میں اختلاف ہو گیا، چونکہ تعریفیں ایسی بھی تھیں جو قصبہ اور قریہ کبیرہ پر صادق آتی تھیں؛ اس لیے فقہاء نے قصبات وقریات کبیرہ کو مصر میں داخل کر دیا۔"

(کتاب الصلاۃ، ج:3، ص:228)

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"تحریر اکابر سے جو کچھ مستفادہے وہ یہ ہے کہ ایسی بستی ہونی چاہیے جو حوائجِ اصلیہ کے لیے جامع ہو جس کو شہر یا قصبہ یا بڑا گاؤں کہا جائے وہاں گلی کوچے ہوں، محلے ہوں، ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں، حکیم یا ڈاکٹر ہو، ڈاکخانہ ہو، حاکم یا پنچائیت کا انتظام ہو، ضروری پیشہ ور ہوں، آس پاس کے دیہات والے اپنی ضروریات وہاں سے پوری کرتے ہوں، محض مردم شماری پر موقوف نہیں۔ یہ جملہ امور پہلے تین چار ہزار کی ابادی میں موجود ہوتے تھے، اب تمدن تیزی سے بڑھ رہا ہے اس سے کم میں بھی یہ سب چیزیں موجود ہو جاتی ہیں، اگر وہاں یہ سب چیزیں موجود ہیں تو جمعہ درست ہے۔"

اور آگے لکھتے ہیں:قریہ صغیرہ میں جمعہ جائزنہیں، قریہ کبیرہ میں جائز ہے۔"

(باب صلاۃ الجمعۃ، ج:8، ص:64-65)


فتوی نمبر : 144507100891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں