بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قریب میں جامع مساجد ہونے کے باوجود ادارہ کا اپنے اسٹاف اور طلبہ کو ادارہ ہی میں جمعہ پڑھانے کا حکم


سوال

ہم ایک اسلامی ادارہ اسکول / کالج میں نوکری کرتے ہیں ، یہاں جمعہ کی نماز کا انعقاد کیا جاتا ہے ، ادارہ کی طرف سے طلبہ اور اسٹاف کو اسکول ہی میں جمعہ پڑھنے کا پابند کیا جاتا ہے ، جب کہ اسکول کے اطراف میں بہت سی جامع مساجد موجود ہیں اور خود اسکول کی گلی میں بھی بہت بڑی جامع مسجد ہے۔

1. کیا اسکول کے اطراف میں بہت سی جامع مساجد کی موجودگی میں اور اسکول کی گلی میں جامع مسجد کی موجودگی میں اسکول میں جمعہ کا انعقاد ہونا چاہیے یا نہیں؟

2. کیا مسجد اور غیرِ مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کی فضیلت میں کوئی فرق ہے ، تو دلائل سے بیان فرمائیں؟

3. عام دنوں میں ادارے میں صرف ظہر کی نماز جماعت سے ہوتی ہے ، اس کے علاوہ کوئی نماز جماعت سے ہونے کا اہتمام نہیں ، اور عام دنوں میں ظہر کی نماز میں اذنِ عام بھی نہیں ہوتا ، جب کہ صرف جمعہ کی نماز کے لیے اسکول کا ایک چھوٹا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ، اسی کو اذنِ عام تصور کیا جاتا ہے ، کیا یہ ٹھیک ہے؟

4. جمعہ کے لیے تین سے زائد افراد کا ہونا اگر یہ جمعہ کی جواز کی دلیل ہے ، تو کن صورتوں میں اس کا جواز بیان کیا گیا ہے ، جب کہ قرب و جوار میں مساجد موجود ہیں اور مساجد میں جاکر جمعہ پڑھنا ممکن بھی ہے ، خاص طور پر اسٹاف کے لیے تو بالکل ممکن ہے کہ وہ مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کرلیں ، کیوں  کہ ادارے 1:15 بجے جمعہ ہوجاتا ہے ، اس کے بعد طلبہ بھی کاچکے ہوتے ہیں ، اور ہم آرام سے 2:00 بجے والی جمعہ کی نماز میں شریک ہوسکتے ہیں۔

5. ادارے کی دو مختلف برانچیں ایک ہی علاقے مثلاً گلشنِ اقبال میں دو مختلف بلاک میں ہیں ، جن میں تقریباً دس منٹ ڈرائیو کا فاصلہ ہے ، دونوں برانچوں ہی میں جمعہ کا انعقاد ہوتا ہے ، بعض دفعہ ہماری برانچ میں طلبہ کے امتحانات یا چھٹیوں کے موقع پر ہماری برانچ میں جمعہ نہیں ہوتا ، تو اسکول انتطامیہ کی طرف سے اسٹاف کو دوسری برانچ میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے ، جب کہ ہماری برانچ کی گلی میں ہی اور قریب میں دوسری مساجد موجود ہیں (یعنی ہماری برانچ اور دوسری برانچ کے درمیان بہت سی جامع مساجد موجود ہیں) اور اسٹاف کی خواہش ہے کہ مسجد میں جمعہ ادا کریں ،ایسی صورت میں اسکول انتظامیہ کا دوسری برانچ میں جمعہ کا حکم دینا از روئے شرع مناسب ہے یا نہیں؟

6. قریب کی مسجد کو چھوڑ کر دوسری جگہ یا دور کی مسجد جانا یا دور کسی غیر مسجد جانا ، جب کہ قریب کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کی ہر طرح گنجائش موجود ہو ، کوئی موانع بھی نہ ہو ، تو ایسی صورت میں قریب کی مسجد کا حق زیادہ ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کا قیام شعائرِ دین میں  سے ہے ، اور قیام جمعہ کے مقاصد میں  سے ایک اہم مقصد  مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہے،جو بڑی جمعیت کے ساتھ ایک جگہ ادا کرنے سے زیادہ واضح طور پر حاصل ہوتا ہے بلا ضرورت جگہ جگہ جمعہ کرنے سے یہ مقصد  حاصل نہیں ہوپاتا، نیز مسلمانوں کا جتنا بڑا مجمع جمع ہوکر خشوع و خضوع سے عبادت کرتاہے اور دعا کرتاہے، اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی قبول فرماتے ہیں اور اپنی رحمت بھی نازل فرماتے ہیں، شیطان اس سے مزید رسوا ہوتاہے، اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات  درج ذیل ہے۔

1. اسکول کے اطراف میں بہت سی جامع مسجد ، خصوصاً اسکول کی گلی میں جامع مسجد کی موجودگی میں، اسکول میں جمعہ   کے قیام سے   چوں کہ جمعہ کا مقصد جو کہ اظہارِ شوکت ہے ،  فوت ہوجاتا ہے  اس لیے وہاں جمعہ  کا انعقاد  نہ کیا جائے۔

2. غیر مسجد میں جمعہ  ادا کرنے سے مسجد کا ثواب نہیں ملتا ، جیسا کہ احادیث میں مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے  کی تاکید اور فضیلت آئی ہے ، ایک حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالتِ اسلام میں کل (قیامت کے دن) اللہ تعالی سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے).پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔

"صحيح مسلم" میں ہے:

"عن عبد الله؛ قال:من سره أن يلقى الله غدا مسلما فليحافظ على هؤلاء الصلوات حيث ينادى بهن. فإن الله شرع لنبيكم صلى الله عليه وسلم سنن الهدى وإنهن من سنن الهدى. ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم. ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم. وما من رجل يتطهر فيحسن الطهور ثم يعمد إلى مسجد من هذه المساجد إلا كتب الله له بكل خطوة يخطوها حسنة. ويرفعه بها درجة. ويحط عنه بها سيئة. ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق، معلوم النفاق. ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف."

(‌‌‌‌كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب صلاة الجماعة من سنن الهدى، رقم الحديث، 654، ج:2، ص:124، ط:دار الطباعة العامرة تركيا)

اسی طرح دوسری حدیث میں ہے:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں: اے اللہ! اس پر سلامتی بھیج، اے اللہ! اس پر رحم فرما ۔تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔

"صحيح البخاري" میں ہے:

"حدثنا الأعمش قال: سمعت أبا صالح يقول: سمعت أبا هريرة يقول:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته، وفي سوقه، خمسة وعشرين ضعفا، وذلك أنه: إذا توضأ فأحسن الوضوء، ثم خرج إلى المسجد، لا يخرجه إلا الصلاة، لم يخط خطوة، إلا رفعت له بها درجة، وحط عنه بها خطيئة، فإذا صلى، لم تزل الملائكة تصلي عليه، ما دام في مصلاه: اللهم صل عليه، اللهم ارحمه، ولا يزال أحدكم في صلاة ما انتظر الصلاة)."

(كتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، رقم الحديث:647، ج:1، ص:131، ط:دار طوق النجاة بيروت)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہےکہ :با جماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔

"صحيح البخاري" میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة)."

(‌‌‌‌كتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، رقم الحديث:645، ج:1، ص:131، ط:دار طوق النجاة بيروت)

ان احادیث میں اور اسی طرح اور احادیث میں باقاعدہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی ترغیب آئی ہے ، لہذا مسجد میں جمعہ کا ہتمام کرنا چاہیے ، بلا مجبوری و غذر کے اسکول میں جمعہ کا  انعقاد نہ کیا جائے۔

3. اذنِ عام  کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص جمعہ قائم کررہا ہو اس کی طرف سے اس شخص کو  جماعت میں شرکت کی اجازت ہو جس پر جمعہ واجب ہو،اس لیے مساجد کے علاوہ   جگہوں پر بھی  جہاں اذنِ عام ہو اور جمعہ  کی شرائط  کی رعایت ہوتی ہو ،تو ایسی جگہ میں جمعہ ادا کرنا جائز ہے ؛ اس لیے کہ جمعہ کی نماز  درست ہونے کے لیے  مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے ، البتہ مسجد میں جمعے کی جو فضیلت ہے وہ مسجد کے علاوہ میں نہیں ہے، لہذا  اگر چھوٹا دروازہ کھولنے کی صورت میں ہر اس شخص کو اجازت ہو جن پر جمعہ واجب ہو تو یہ اذنِ عام تصور ہوگا لیکن اگر صرف رسماً چھوٹا دروازہ کھولا  جاتا ہو کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ ہو تو یہ اذنِ عام کے لیے کافی نہ ہوگا۔

4. امام کے علاوہ    کم ازکم تین عاقل بالغ افراد کا موجود ہونا اس صورت میں ہے جب مصر یا فنائے مصر (اطراف شہر ) یا بڑی بستی میں  ہو، لیکن یہ بوقت مجبوری کم از کم تعداد ہے ورنہ جہاں جامع مسجد موجود ہو اور وہاں پہنچنے میں کوئی دشواری نہ ہو تو پھر وہاں جانا لازم ہے ، البتہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر چہ ایسی صورت میں نماز ادا ہوجاتی ہے لیکن چوں کہ اس سے جمعہ کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ، لہذا اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ، لہذا مذکورہ صورت میں جب ادارہ سے چھٹی ہوجاتی ہے ، تو پھر اسٹاف کو قریبی جامع مسجد میں جانے کا التزام کرنا چاہیے۔

5. اسکول انتظامیہ کا  اسٹاف کو دوسری برانچ میں جمعہ پڑھنے کا حکم کرنا  اور ان کو وہاں کا پابند کرنا از روئے شرع  درست نہیں ہے، کیوں کہ استاد کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور اجیرِ خاص کو ڈیوٹی کے اوقات میں فرائض پڑھنے کے لیے مسجد جانا جائز ہے ، تاہم نماز کے لیے صرف اتنی دیر پہلے مسجد جانا چاہیے جس میں وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر سنتِ مؤکدہ کی ادائیگی اور تکبیر اولیٰ کے ساتھ جماعت سے نماز مل سکے ، اگر پہلے سے باوضو ہوں تو اس طرح جائیں کہ تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائیں،خلاصہ یہ ہے کہ ادارہ والوں کی طرف سے جتنی دیر ٹھہرنے کی اجازت ہو اس سے زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے۔

6. اگر قریبی مسجد میں گنجائش ہو اور کوئی مانع نہ ہو تو پھر  دور کی مسجد سے محلہ کی اور قریبی مسجد کا زیادہ حق ہے۔

"حلبي کبیر" میں ہے:

"وفي الفتاوی الغیاثیة: لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة  لها قری وفیها والٍ وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط؛ ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر."

 

(كتاب الصلاة، فصل في صلاة الجمعة، ص:551، ط:سهیل اکیڈمی، لاهور)

"الفتاوی الھندیة" میں ہے: 

"(ومنها: الإذن العام) و هو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافةً حتى أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، و كذلك السلطان إذا أراد أن يجمع بحشمه في داره فإن فتح باب الدار و أذن إذنًا عامًّا جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ج:1، ص:148، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكره) تحريماً (لمعذور ومسجون) ومسافر (أداء ظهر بجماعة في مصر) قبل الجمعة وبعدها؛ لتقليل الجماعة وصورة المعارضة، وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع (وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة)؛ فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة."

(‌‌كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:157، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي: وإذا استأجر رجلًا يومًا يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضًا. واتفقوا أنه لايؤدّي نفلًا، وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لايمنع في المصر من إتيان الجمعة ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدًا، وإن قريبًا لم يحط شيء فإن كان بعيدًا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة."

(كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، ج:6، ص:70 ط:سعيد)

"شرح المجلة لسلیم رستم باز"میں ہے:

"الأجیر علیٰ قسمین: الأوّل الأجیر الخاص وهو الذی استوجر علیٰ أن یعمل للمستأجر فقط، کالخادم مشاهرةً عملاً موقتاً بمدة معلومة."

(کتاب الإجارة،الباب الأول، رقم المادة:422،ج:1،ص:236، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل."

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى."

(‌‌كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، مبحث الأجير الخاص، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، ج:6، ص:70، ط:سعید)

"خلاصة الفتاوی" میں ہے:

"رجل يصلي في الجامع لكثرة الجمع ولايصلي في مسجد حيه فإنه يصلي في مسجد منزله و إن كان قومه أقل، وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يؤذن ويصلي ... فالأفضل أن يصلي في مسجده ولايذهب إلي مسجد آخر."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:228، ط:رشیدية)

فتاویٰ قاضی خان میں ہے: 

"لأن لمسجد منزله حقًّا عليه فيؤدي حقه."

(كتاب الطهارة، فصل في المسجد، ج:1، ص:65، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں