بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کے معاملہ میں قرض دیتے وقت واپسی میں زیادتی کی شرط لگانے کا حکم


سوال

میں  ایک شخص سے دو لاکھ روپے  قرض لینا چاہ رہا ہوں،اوروہ شخص اس شرط پر دے رہا ہے کہ بعد میں ایک سال بعد دو لاکھ چالیس ہزار روپے لوٹانے ہوں گے، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا مذکورہ شخص سے دو لاکھ روپے اس شرط پر قرض لینا کہ ایک سال بعد دو لاکھ پر مزید چالیس ہزار روپے کی ادائیگی سائل پر لازم ہوگی، شرعاً ناجائز اور سود ہے،کیوں کہ قرض کے حوالہ سے شریعت کا اصول یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اتنا ہی واپس کیا جائے جائے ،قرض واپسی میں   اضافے کی شرط لگانا جائز  نہیں ہے ،بلکہ یہ سود کے زمرے میں ہونےکی وجہ سے یہ زیادتی لینا حرام ہے، اور نہ ہی قرض دینے والا قرض دیتے وقت یاقرض دینے کے بعد صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ کرسکتا ہے،البتہ  اگر مذکورہ شرط کے بغیرسائل اُس شخص سے قرض لے لے،اور اور وہ شخص زیادتی کا مطالبہ نہ کرے،اور سائل واپسی میں  از خود کچھ پیسے مزید بڑھا کر واپس کردے  ،توشرعاً اس کی اجازت ہے  ۔

سنن الکبری للبیہقی میں ہے :

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " ‌كل ‌قرض ‌جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا."

( باب کل قرض جر منفعة فهو ربا ، ج:5 ، ص:571، ط :دارالکتب العلمیة )

ترجمہ:" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔"

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(كتاب الحوالة، باب كل قرض جر منفعة، ج:14، ص:513، ط:ادارة القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌كل ‌قرض ‌جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:5، ص:166، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں