بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض دے کراس پرمنافع وصول کرنے کا شرعی حکم


سوال

میں نےاپنے کزن سے  آج سے چار سال پہلے 2لاکھ روپے آن لائن کرپٹو کرنسی میں انویسٹ کرنے کے لئے لیے تھے اور اس میں اُس نے یہ شرط رکھی تھی کہ میں  ہر ماہ کبھی 15 ہزار اور کبھی 16 ہزار لوں گا،اور نقصان ہونے کی صورت میں میرا کوئی حصہ نہیں ہوگا،اور میں  اس کو تقریباً 4 سال کی مدت میں 768000 روپے دے چکاہوں،جب کہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے اس سے پیسے لے کر اپنی ضرورت میں استعمال کرلئےتھےاور اس پر کوئی کاروبار نہیں کیا تھا،لیکن میں نے اس سے وعدہ کیا تھاتو میں اس کو اپنی تنخواہ سے پیسے دیتا رہا ،جب مجھے دوبارہ پیسوں کی ضرورت پڑی تو میں پھر اس کے پاس گیااور  کہا مجھے 5 لاکھ ادھار  چاہیئے،کاروبار میں ضرورت ہے تو اس نے کہاکہ مجھے ہر ماہ 60 ہزار روپے دو گےتو میں آپ کو 5 لاکھ کی رقم دوں گا تو میں نے کہا ٹھیک ہے،پھر یہ مجھ سے ہر ماہ 60 ہزار روپے لیتا رہا،تقریباً چھ سے سات ماہ تک میں    اسے 3لاکھ 60 ہزار اداکرچکا ہوں  اور  پھر یہ معاملہ یوں ہی چلتا رہا اور میں اس سے دو دفعہ لی ہوئی رقم پر   اوپر کے پیسے دیتا رہا،پھر مجھے پیسوں کی  ضرورت پڑی،تو میں نے  اس سے کہا کہ مجھے 2 لاکھ 50 ہزار روپے مزید  درکار  ہیں کاروبار کے لیے تو اس نےکہا کہ مجھے 2500 روپے دو گے تو میں یہ رقم  آپ کودوں گا،میں نے کہا ٹھیک ہے تو اس نے مجھے 2لاکھ  50 ہزار  روپے مزید دیدئیےاور میں  اسے تقریباًایک سے ڈیڑھ ماہ تک روزانہ 2500 روپے دیتا رہا،جس کی ٹوٹل رقم تقریباً1لاکھ 12 ہزار 500 روپے  ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ  میرے کزن نے مجھے ٹوٹل رقم0 9,50,00 روپے دی ہے،اور اسے میں اوپر کی مد میں 12,40,500روپے دے چکا ہوں تو  جو  اوپر کی رقم میرے کزن نے مجھ سے لی ہے، اس رقم کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے، کیوں کہ وہ تقا ضا کر  رہا ہے کہ آپ کی اوپر کی رقم ختم ہوگئی ہے اور  کہتا ہے کہ جو 9لاکھ 50 ہزار   روپے آپ  نے مجھ سے لئے تھے،وہ واپس کروں ،  مہربانی کرکے شرعی رہنمائی فرمائیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل نے جب اپنے کزن سے    تین مرتبہ کا روبارکےنام پہ رقم وصول کی اور کزن نے ہر دفعہ  اس شرط پر  سائل کورقم  دی کہ مجھے ماہانہ  متعین نفع دو گے،اور   اس کے بعد  سائل نے جب اس رقم کو اپنی ضروریا ت میں استعمال کرکے  کاروبار میں نہیں لگایا، اور  اپنے کزن سے کئےہوئے معاہدہ  کے مطابق  نفع دیتا رہا تو یہ نفع دینا اور لینا دونوں شرعا ناجائز تھا، کیوں کہ یہ شرعا قرض پر سود لینا دینا ہے جو کہ  ناجائز اور حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد مبارک ہےکہ:ہروہ قرض جونفع کھینچ لائے سودہے، لہذا سائل کا کزن صرف اپنی اصل  رقم لینے کا حق دار ہے ،منافع کے نام سے جتنی رقم وہ لے چکاہے، اس کا استعمال اس کےلیے جائز نہیں، حرام ہے ،  اس پر لازم ہے کہ وہ تمامزائد رقم سائل کو واپس کردے ،نیزسودی معاملہ کرنےپردونوں گناہ گارہوئےہیں،اس پر سچےدل سےتوبہ واستغفار لازم ہے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن جابر، قال:"لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے ،کھلانے والے ،لکھنے والے،اور اسکی  دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے،اور فرمایا کہ( گناہ)میں  یہ سب برابر ہے۔"

(کتاب المساقاۃ، باب لعن آ كل الربا ومؤكله، 1219/3، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: کلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي: إذا کان مشروطًا کما علم مما نقله عن البحر."

(مطلب کل قرض جر نفعًا حرام، فصل في القرض، باب المرابحة والتولیة، 166/5، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه نهى عن قرض جر نفعا؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، 395/7، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"جس قدر مال بطریق حرام کمایا ، اس کی واپسی لازم ہے، اگر وہ شخص موجود نہ ہو جس سے مثلاً مال حرام ( مثلاً رشوت یا غصب ) لیا ہو ، مر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دیا جائے ، ورثاء بھی موجود نہ ہوں، یا کوشش کے باوجود ان کا علم نہ ہو سکے تو غریبوں محتاجوں کو صدقہ کر دیا جائے ."

(کتاب الحظر والإباحۃ ، باب المال الحرام ومصرفہ ،408/18، ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں