بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض میں جتنی رقم لی جائے اتنی ہی واپس کرنا لازم ہے


سوال

 میری والدہ نے اپنے والد یعنی میرے نانا سےمکان خریدنے کے  لیے 2005 میں مبلغ  150000 لاکھ قرض لیا تھا ،  نانا نے وہ رقم اپنے بیٹے یعنی میرے ماموں کا پلاٹ بیچ کر دی تھی ، بعد میں کبھی ترتیب نہیں بنی ،اور امی جان وہ رقم نانا کو ادا نہ کر سکیں ،  اب نانا جان فوت ہوگئے ہیں،  نانا جان نے کبھی بھی اس رقم کا مطالبہ نہیں کیا تھا،  اب کافی سال گزرنے کے بعد امی جان ماموں کو وہ رقم لوٹانا چاہ رہی ہیں، ماموں کہتے ہیں کہ مجھے واپس کرنے ہیں تو میں تو 15 سال کے بعد آج جو پیسوں کی قدر ہے اس حساب سے لوں گا،  جو کہ آج کل کے حساب سے 560000 روپے بنتے ہیں ،دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھ سےپیسے  نہیں لیے تھے آپ نے ابو سے لیے تھے تو بس آپ جانو اور ابو۔

 سوال یہ ہے کہ کیا ماموں رقم لینے کے حق دار ہیں؟ اگر ہیں تو150000 کے یا 560000 کے؟ دوسری بات یہ کہ نانا کو امی ہمیشہ کہتی رہیں کہ میں پیسے نہیں دے سکتی تو نانا کہتے تھے کہ پریشان نا ہو اللہ کرم کرے گا اور اچھا ہوگا ،لیکن معافی کا لفظ نہیں بولا،  اب ہمارے لئے شرعی حل کیا ہے؟ اب والدہ بھی بھی اس دار فانی سے رخصت ہو چکی ہیں۔ (والدہ کے لئے دعائے مغفرت کی درخواست ہے )۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں نانا نے جو رقم سائل کی والدہ کو بطورِ قرض دی تھی  سائل کی والدہ پر اس رقم کی ادائیگی لازم تھی، پھراگر  سائل کے ماموں نے یہ رقم اپنے والد کو بطورِ قرض دی تھی تو  سائل کا ماموں یہ رقم یعنی ڈیڑھ لاکھ روپے لینے کا حق دار ہوگا، قرض پر زیادتی کا مطالبہ ناجائز وحرام ہے، اور اگر یہ رقم  اپنے والد(سائل کے نانا) کو بطورِ تعاؤن کے دی تھی تو پھر یہ رقم مرحوم نانا کے ورثاء میں شرعی حساب سے تقسیم ہوگی۔

تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى."

(كتاب البيوع، باب القرض، ج:1، ص:500، ط: قديمي كتب خانه )

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الرهن، ‌‌فصل في مسائل متفرقة، ج:6، ص:525، ط: سعید)

وفيه ايضاً:

"أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه و رخصه."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض،ج:5، ص:162، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"(‌ثم) ‌تقدم (‌ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)...ثم) تقدم (وصيته)...(ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته)."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:760، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌لأن ‌الإرث ‌إنما ‌يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»."

(كتاب الحدود، فصل في شرائط جواز إقامة الحدود، ج:7، ص:57، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه أيضاً:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:395، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں