ہم پانچ بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں،اب ہم علیحدہ علیحدہ رہنا چاہتےہیں،اس وجہ سے ہم بھائیوں کے درمیان تقسیم ہورہی ہے،میری بیوی نے اپنے ذاتی پیسے سے ایک رکشہ خریدکر میرے بھائی کو چلانے کے لیے دیاتھا،رکشہ کے کمائی میں سے روز میری بیوی کو پانچ سو روپے دیتا تھا،باقی منافع مشترک استعمال کرتا۔
اسی طرح میری بیوی کی ذاتی بکری مہمان آنے پر ہم بھائیوں نے ذبح کی اس شرط پر کہ میری بیوی کے لیے دوسری بکری خرید کرکے دیں گے،اورہم بھائیوں پر ڈیڑھ لاکھ روپے قرضہ تھا، اس وجہ سے ہم بھائیوں نے رکشہ بھی فروخت کرکے اس قرض کو ادا کیا اس شرط پر کہ میری بیوی کے لیے دوسرا رکشہ خرید کرکے دیں گے،لیکن دس سال گزرگئے کہ ہم نے نہیں خریدا۔
سوال یہ ہے کہ دس سال پہلےبکری کی قیمت سات ہزار تھی،دس سال بعد آج کل بکری کی قیمت تیس ہزار رپے ہے،اس طرح دس سال قبل ہم نے رکشہ ڈیڑھ لاکھ میں فروخت کیا ،جب کہ دس سال بعد رکشہ کی قیمت چار لاکھ روپےہے، تو ابھی کس اعتبار سے ادا کریں؟
اگر نقد کی صورت میں ادا کرنا چاہے دس سال قبل میں جو قیمت تھی، اس اعتبار سے ادا کریں یا دس سال بعد آج کے اعتبار سے بکری اوررکشہ کی قیمت جتنا بنتی ہے، اس اعتبار سے اداکریں یا رکشہ اور بکری خرید کر دیں؟
صورت مسئولہ میں جب رکشہ اس شرط پر لے کر فروخت کیا تھا کہ ”دوسرا رکشہ خرید کرکے دیں گے،“تو اب اس کی واپسی کی صورت میں معاہدہ کے مطابق اسی معیار کا رکشہ خرید کر واپس کرنا ضروری ہے،البتہ اگر سائل کی بیوی اس رکشہ کے بدلے میں اس کی موجودہ ریٹ کے حساب سے قیمت پر راضی ہوجائے،تو پھر موجودہ قیمت واپس کی جائے گی،اوربکری چوں کہ ذوات القیم (قیمتی )میں سے ہے،لہذا اگر اس جیسی بکری کی موجودہ قیمت بھی واپس کردی جائے تو درست ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصا."
(كتاب الشركة، فروع في الشركة، ج:4، ص:320، ط:سعيد)
محیط برہانی میں ہے:
"الديون تقضى بأمثالها، فيصير المقبوض مضموناً على القابض ديناً للدافع على ما عرف."
(كتاب الدعوى، الفصل الثالث: في دعوى الملك المطلق في الأعيان، ج:9، ص:22، ط:دار الكتب العلمية)
دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"الضمان هو إعطاء مثل الشيء إن كان من المثليات وقيمته إن كان من القيميات."
(الكتاب الثاني الإجارة ويشتمل على مقدمة وثمانية أبواب، الضمان هو إعطاء مثل الشيء إن كان مثليا وقيمته إن كان قيميا، ج:1، ص:448، ط:دار الجيل)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144606100314
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن