بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ادائیگی کے لیے شوہر کو ہم بستری سے روکنے کاحکم


سوال

میری بیوی  میری تنگ دستی کی وجہ سے رشتے داروں اور کمپنی کے ملازمین سے قرض لے چکی ہے ،جس کی وجہ سے وہ مجھے مباشرت سے منع کرچکی ہے، کہتی ہے کہ قرض اتارنے کے بعد مباشرت کرنے دوں گی،شرعی رہنمائی فرمائیں؟

جواب

 واضح رہے کہ کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ  وہ اپنے شوہر کو بغیر کسی شرعی عذر کے قریب نہ آنے دے، شوہر کی جسمانی ضرورت و خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے، شرعی عذر  ( جیسے ایام، بیماری، یا شوہر کا حدِ اعتدال سے زیادہ ہم بستر ہونا جس کی بیوی میں طاقت نہ ہو یا شوہر کی جانب سے تسکین شہوت کے لیےغیر فطری راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرنا) کے  بغیر تسکینِ شہوت سے شوہر کو روکنا بیوی کے لیے شرعاً جائز نہیں، احادیث میں ایسی بیوی کے  لیے  سخت وعیدیں  آئی ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں بیوی کا سائل کو اس لیےمنع کرناکہ وہ قرض اداکرے،شرعی عذر نہیں ہے،بشرط یہ کہ بیوی کی صحت ٹھیک ہو،لہٰذا بیوی پر لازم ہے کہ وہ سائل کو ہم بستری سے نہ روکے، باقی سائل کی بیوی نے قرض کی رقم ان اخراجات کے لیے لی ہے جو سائل کے ذمے لازم ہیں تو سائل کو  بھی چاہیے کہ قرض کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر یا ٹال مٹول سے کام نہ لے اور جلد از جلد قرض ادا کردے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا ‌دعا ‌الرجل ‌امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح."

(رواه البخاري ،کتاب بدء الخلق،116/4،ط:دار طوق النجاةبيروت)

ترجمہ: ’’جب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک سارے فرشتہ اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں‘‘۔

مرقاۃالمفاتیح شرح مشکاۃالمصابیح میں ہے:

"(فأبت) : أي: امتنعت من غير عذر شرعي."

(كتاب النكاح،باب عشرة النساء،2121/5،ط:دارالفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100573

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں