بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض خواہ کا قرض دار کو زکوۃ کی رقم دے کر واپس اپنے قرضہ کے بدلے میں لینا


سوال

میں نے ایک دوست کو قرض دے رکھا ہے، لیکن اس کو کاروبار میں اتنا نقصان ہوا کہ اس کے گھر کا خرچ چلنا بھی مشکل ہو چکا ہے، اور وہ میرا قرض بھی نہیں اتار سکتا،  اب کیا میں اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اسے اپنے قرض سے بری الذمہ کر سکتا ہوں ،مطلب اگر وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے تو کیا میں اپنی زکوٰۃ کی اتنی رقم اس کی قرض کی ادائیگی سمجھ کر خود رکھ سکتا ہوں ؟اور ایسی صورت میں اسے بتانا ضروری ہو گا یا نہیں ؟اور اگر بتانا ضروری ہو تو کیا اسے صرف بتا کر رقم رکھ لی جائے یااسےپہلے رقم ادا کی جائے ،بعد میں واپس لی جائے؟  راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے جائز نہیں کہ وہ مقروض کے ذمہ قرض کی رقم میں سے زکوۃ کی رقم کی ادائیگی سمجھ کر رکھ لے، اس طرح سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، تاہم  اگر مذکورہ شخص جو آپ کا قرض دار ہے، صاحب نصاب نہیں ہے یعنی اس کے پاس اتنا سونا  چاندی یا نقدی یا ضرورت سے زائد اشیاء یا ان سب یا بعض کا مجموعہ موجود نہیں کہ جس کی کل مالیت سے آپ کا واجب الادا  قرضہ  منہا کر نے کے بعد  بھی اس کی ملکیت میں نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے بقدر باقی بچتا ہو توایسی صورت میں زکوۃ کی رقم سےمذکورہ شخص کے قرضہ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہےکہ آپ اسے زکاۃ  کی رقم کا مالک بنائیں اور  جب وہ رقم پرقبضہ کرلےاوراس کامالک بن جائے،اس کے بعدآپ اس سے اپنے قرضہ کامطالبہ کریں،اورجب قرض دارآپ کو قرض لوٹادے،تواس طرح سے مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گااورآپ کی زکاۃ  بھی ادا ہوجائے گی ،نیزشرعاً ایساکرناجائزبھی ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها الغارم وهو من لزمه دين ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير."

(كتاب الزكاة، الباب السابع فى المصارف، ج:1، ص:188 ط : رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:189 ط : رشيدىة)

فتح القدیر میں ہے :

"( ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان )لأن الغنى الشرعي مقدر به ، والشرط أن يكون فاضلا عن الحاجة الأصلية وإنما شرط الوجوب( ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا) لأنه فقير والفقراء هم المصارف ، ولأن حقيقة الحاجة لا يوقف عليها فأدير الحكم على دليلها وهو فقد النصاب."

(كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقة اليه ومن  لايجوز، ج:4، ص:217 ط : دار الفكر)

فتاو ی رحیمیہ میں ہے :

"سوال : ایک آدمی پرمیرے پانچ  روپے قرض ہیں ،میں بمدزکوۃ اس کودوں تواس سے زکوۃ اداہوجائے گی یانہیں ؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں زکوۃ ادانہ ہوگی ،اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنی طرف سے پانچ روپے اسے دے کرمالک بنادیاجائے،پھروہ بمدقرض اداکردےتواس صورت میں زکوۃ بھی اداہوجائےگی اورقرض بھی وصول ہوجائےگا۔"

(کتاب الزکوۃ، مصارف زکوۃ ج : 7 ص : 174 ط : دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144407100072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں