بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض پر قربانی کا حکم


سوال

قربانی کس پر فرض (واجب) ہے، اگر کوئی بندہ مقروض ہو اور اس کی بیوی کے پاس سونا ہوتو کیا اس کو بیچ کر قربانی کی جائے؟ رہ نمائی فرمائیں۔

جواب

 قربانی ہر اس مسلمان عاقل بالغ مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملک میں عید الاضحیٰ کے ایام میں  ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال یا سامان  اس کی حاجاتِ اصلیہ    اور قرض سے زائد موجود ہو۔ یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مالِ  تجارت یا ضرورت اصلیہ سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ وغیرہ ہو، قربانی کے نصاب کے لیے کافی ہے، نیز قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔

 صورت مسئولہ میں  اگر کوئی شخص مقروض ہو  اور اس کے پاس کچھ مال بھی ہو  تو  اگر یہ مال اتنا ہو کہ عید کے تیسرے دن تک  واجب الادا قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد، نصاب کے بقدر یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال بچا رہتا ہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی  او راگر قرض ادا کرنے کے بعد نصاب سے کم مال بچے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

نیز سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ مذکورہ شخص کی بیوی کی ملکیت میں کتنا سونا ہے؟تاہم مذکورہ شخص کی بیوی کی ملکیت میں اگر ساڑھے سات تولہ  سونا ہے تو اس پر قربانی واجب ہےچاہے تو سونا فروخت کرکے قربانی کرے، یا کسی سے اتنی رقم  بطورلے کر قربانی کرے اور بعد میں اسے ادا کر دے۔ اور اگر سونا ساڑھے سات تو سے کم ہے تو اس میں تفصیل ہے:   اگر کسی (خواہ مرد ہو یا عورت) کی ملکیت میں ساڑھے سات تولے سے کم سونا ہے اور اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ ہی چاندی ہو اور نہ ہی بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم سے زائد نقدی ہے ، نہ ہی مالِ تجارت ہےتو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی،  البتہ اگر کچھ  سونا ہے اورکے ساتھ  کچھ چاندی یا بنیادی اخراجات کے لیے درکار رقم کے علاوہ کچھ نقدی یا مالِ تجارت بھی ہے  تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو  چاندی کی قیمت یا نقدی یا مالِ تجارت کے ساتھ ملانے سے چوں کہ مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے گی اس لیے قربانی واجب ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو كان عليه دين بحيث لو صرف فيه نقص نصابه لا تجب، وكذا لو كان له مال غائب لا يصل إليه في أيامه."

(كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ج: ۵، صفحہ: ۲۹۲، ط: دارالفکر) 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين   میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لويدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(کتاب الاضحیۃ، ج: ٦، ص: ٣١٢، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں