بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کے پیسوں میں زکوٰۃ کی نیت کرنا


سوال

کسی کو قرض دیا اور ان پیسوں پر زکوٰۃ کی نیت کی تو کیا زکوٰۃ ادا ہو جاۓ گی؟

جواب

اگر سوال کا مقصد یہ  ہے کہ قرض زکوٰۃ کی نیت سے دینا  کیسا ہے تو اس کا حکم یہ ہے:

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ، زکوٰۃ کی رقم ادا کرتے وقت یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ  زکوٰۃ  کی رقم ہے، بلکہ کسی بھی عنوان (مثلاً  قرض یا ہدیہ وغیرہ کے نام ) سے ضرورت مند کو دی جاسکتی ہے، ہاں  یہ ضروری ہے کہ وہ رقم الگ کرتے وقت یا اس کی  ادائیگی کے وقت زکوٰۃ کی نیت ہو  اور جس شخص کو دی جارہی ہو وہ مستحق ہو، اور اس کا مالک بناکر دی جائے۔ لہذا زکوٰۃ، قرض کے نام سے دی جاسکتی ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 171):

'' ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية''

اور اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ کسی کو قرض دیا ہے اور اب اس کا قرضہ زکوٰۃ کی  مد میں معاف کرنا ہے تو اس کا حکم یہ ہے:

پہلے سے چڑھے قرضہ کو مقروض پر سے زکاۃ  کی مد میں کاٹ لینے سے زکاۃ  ادا نہیں ہوگی؛ کیوں کہ زکاۃ کی ادائیگی کے وقت یا زکاۃ میں دیے جانے والے مال کو جدا کرتے وقت زکاۃ کی نیت کرنا ضروری ہے، کوئی مال کسی کو دینے کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ مذکورہ صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کی دو جائز صورتیں ہیں:

1- اگر مقروض واقعۃً بہت مستحق ہے تو اسے زکاۃ  کی رقم کا مالک بنائیں اور  جب رقم اس کی ملکیت میں چلی جائے، تو اس سے اپنے قرضہ وصول کر لیں۔اس طرح دینے والے کی زکاۃ  بھی ادا ہوجائے گی، اور مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔

2- زیادہ بہتر صورت یہ ہوگی کہ مقروض، قرض کے برابر رقم کسی تیسرے شخص سے ادھار لے کر  قرض خواہ کو اپنا قرض ادا کرے، قرض خواہ قرض وصول کرنے کے بعد وہی رقم اپنی زکاۃ کی مد میں سابقہ مقروض کو ادا کردے، پھر یہ مقروض اس تیسرے شخص کو اس کی رقم لوٹا دے جس سے اس نے عارضی طور پر ادھار لیا تھا۔ اس طرح اولاً قرض خواہ کا قرض وصول ہوجائے گا، لیکن مقروض پھر بھی مقروض اور مستحقِ زکاۃ رہے گا، پھر قرض خواہ جب اسے اپنی زکاۃ ادا کرے گا تو اس کی زکاۃ ادا ہوجائے گی اور قرض خواہ کے پاس اپنی زکاۃ میں دی گئی رقم کا کوئی حصہ واپس اپنی ملکیت میں بھی نہیں آئے گا، اور آخر میں مقروض کا قرض بھی ادا ہوجائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں