بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض دینے والے پر زکوۃ واجب ہے


سوال

(1)مجھے میری والدہ کی طرف سے بیس لاکھ روپے کی رقم ملی ہے جو انہوں نے میرے نام کی ہے اور اب وہ میری ملکیت ہے ،لیکن فی الحال اس رقم کو ایک مہینہ ہوا ہے، کیا اس پر زکوٰۃ فرض ہے؟

( 2)میں نے اپنے بھائی کو ایک ماہ پہلے 13 لاکھ روپے قرضہ دیا جو مجھے دو سے تین ماہ گزرنے کے بعد واپس ملے گا ،کیا اس قرض پر بھی مجھے زکوۃ دینا ہے؟

جواب

واضح رہےاگر کوئی شخص صاحب نصاب ہے اور  مثلًا: اس کی زکوٰۃ کا کا سال یکم رمضان سے یکم رمضان تک پورا ہوتا ہے، اور درمیان سال میں کچھ رقم اور مل گئی یا سونا یاچاندی مل گیا ، تو بعد میں   ملنے والی چیزوں کے سال کا حساب ا  لگ نہیں ہوگا ،بلکہ  جب یکم رمضان آئےگا  تو ان چیزوں کی زکوۃ دینا بھی لازم ہوگا ، اور رقم قرض کے طور پر کسی کو دی ہے اگر وہ تنہا یا دوسرے موجود روپے یا سونا چاندی یا مال تجارت کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے تو قرض دینے والے پر اس کی زکوۃبھی واجب ہے ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل پہلے سے صاحب نصاب ہے تو پھر مذکورہ بیس لاکھ روپے پر الگ سال گزرناشرط نہیں، بلکہ مذکورہ بیس لاکھ کو پہلے سے موجود نصاب کے ساتھ ملا کر زکوۃ ادا کرےگا ، نیز سائل پر ان 13لاکھ روپے کی زکوۃ  بھی فرض ہے جو سائل نے قرض پر دیئے ہیں ،اور اگر سائل پہلے سے صاحب نصاب نہ تھا یعنی ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے بقدر رقم یا سونا اور چاندی یا مال تجارت کا سائل مالک نہ تھا ،تو پھر مذکورہ رقم کا مالک بننے کے بعد جب اس پر قمری سال کے اعتبار سال گزرےتب زکوۃ فرض ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك".

(كتاب الذكوة،175/1،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعندهما الديون كلها سواء تجب زكاتها، ويؤدي متى قبض شيئا قليلا أو كثيرا إلا دين الكتابة والسعاية والدية في رواية بحر".

(کتاب الذکوۃ ،باب زکوۃ المال ،305/2،ط:دار الفکر )

بدائع الصنائع میں ہے :

"وذكر الكرخي أن هذا إذا لم يكن له ‌مال ‌سوى ‌الدين، فأما إذا كان له ‌مال ‌سوى ‌الدين فما قبض منه فهو بمنزلة المستفاد فيضم إلى ما عنده والله أعلم".

(كتاب الذكوة، 11/2، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508102223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں