ایک شخص دوسرے شخص کے پاس جا کر رقم مانگتا ہے، رقم دینے والا شخص قرض مانگنے والے شخص سے پوچھتا ہے کہ آپ کو کتنی رقم چاہیے؟ قرض لینے والا شخص کہتا ہے کہ مجھے بازار میں موجود نئی موٹر سائیکل جتنی رقم چاہیے، قرض دینے والا شخص قرض مانگنے والے شخص سے کہتا ہے کہ میں آپ کو رقم اس شرط پر دوں گا کہ آپ مجھے میری قرض والی رقم 50 ہزار منافع کے ساتھ واپس قسطوں میں دو گے۔
اب سوال یہ ہے کیا اسے سود کہا جا ۓ گا؟
واضح رہے کہ قرض کے بارے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ قرض میں جتنی رقم یا جو مقدار وصول کی جائے، قرض دار پر اتنی ہی مقدار قرض خواہ کو واپس کرنا لازم ہوتا ہے، اب صورتِ مسئولہ میں قرض دینے والے شخص کا قرض اس شرط پر دینا کہ قرض والی رقم 50 ہزار منافع کے ساتھ واپس قسطوں میں وصول کرے گا ، تو یہ سود ہے اور سود کا لین دین شرعاً حرام ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"كل قرض جر نفعا حرام."
(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج: ٥، ص: ١٦٦، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."
( كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج: 7، ص: 395، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101931
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن