بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قانونی مجبوریوں کی وجہ سے رشوت دینا / سودی قرض لینا


سوال

 ہمارا گھر بازار میں ہے اور والد صاحب وہاں مارکیٹ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اُس کے لیے بہت سے مسائل جو بظاہر اسلام میں جائز نہیں پیشِ نظر ہیں۔ مثلاََ نقشہ پاس کرانے کے لئے ڈھائی لاکھ روپیے کی رقم دینی پڑتی ہے تب وہ قانونی طور پر پاس ہوگا اور ہم تعمیر شروع کر سکیں گے سوال یہ ہے کہ کیا یہ رشوت کے زمرے میں آئے گا؟ جبکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔

دوسرا یہ کہ پانچ لاکھ سے زیادہ رقم کی کوئی شخص تعمیر کرے تو اسے سرکار بلیک منی مانتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے لون لینا ضروری ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ سود کے زمرے میں آئے گا؟؟ یہ چونکہ اضطراری حالت ہے تو شریعت میں اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہرشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہے، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بچنا بھی واجب ہے،اوراگر کسی ایسے کام کے کرنے  کا رادہ  ہو  جس میں رشوت دیے بغیر کام نہ ہوتا ہو، تو ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے البتہ اگر کوئی  جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور اپنا حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سےوہ کام  نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں سب سے پہلے  اپنی پوری کوشش کی جائےکہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)  کسی طرح کام ہوجائے،اور جب تک کام نہ ہو اس وقت تک صبر کریں اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتے رہیں، لیکن اگر کسی صورت کام نہ ہو رہا ہواور کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تواپنے جائز ثابت شدہ حق کے حصول کے  لیے مجبوراً  رشوت دینے کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والا سخت گناہ گار ہوگا۔

2۔لیکن  قانونی مجبوریاں شرعی اعتبار سے اضطراری حالت میں شمار نہیں ہوتی،لہذا صرف قانونی پیچیدگیوں  کی وجہ سے بینک سے سودی قرض  لینا شرعا جائز نہیں ہے،اس سے کام میں خیر وبرکت نہیں رہتی،اس لیے بہتر ہے کہ کوئی ایسا کام/ذریعہ معاش اختیار کیا جائے جس میں مذکورہ بالاغیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ."

(  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع،ج6،ص423، ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»): أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه". 

(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵،ط:دارالکتب العلمیة)

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وفي القنية من الكراهية يجوز للمحتاج ‌الاستقراض ‌بالربح اهـ"

(کتاب البیوع،باب الربا،ج6،ص137،ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"اگرآدمی کا جائز کام بغیر رشوت دیے نہ ہوتا ہو تو کیا حکم ہے

س:کیا فرماتے ہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ بعض اوقات ایک جائز کام رکا ہوا ہوتا ہے جو کہ محض دنیا کاری کا ہے۔یہ کام محض حکام بالا کو رشوت نہ دینے کی وجہ سے رکا ہوا ہے،کیا دین ودنیا کے ایسے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے رشوت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

ج:وصولی حق کے لیے جب بدون دیے مضرت کا خوف ہو گنجائش ہے لیکن لینے والے کےلیے ہر حال میں حرام ہے۔فقط واللہ اعلم"

(سود کا بیان،ج7،ص339،ط؛جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں