ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا، اور دوسری شادی بھی کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ شخص بیرون ملک میں کافی عرصہ سے موجود ہے، اس سلسلے میں کاغذات بھی جمع کروارہا ہے اور وہاں کے کاغذات میں موجودہ بیوی کا نام بطور بیوی لکھوایا ہے، اب بیرون ملک کے قوانین کے مطابق اگر کوئی دوسری شادی کرتا ہے، تو اس کو یہ بات لکھ کر دینی ہوگی کہ مذکورہ شخص اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کاغذات میں اس طرح لکھنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ کیا اس سے طلاق واقع ہوجائے گی؟نیز ایسا شرعی حل بتلائیں کہ حکومتی کاغذات پر عمل بھی ہوجائے اور طلاق بھی شرعاً واقع نہ ہو۔
صورتِ مسئولہ میں سائل طلاق نامہ بنواتے وقت ، اس بات پر دو شرعی گواہ بنائے کہ میں قانونی مجبوری کی بنا پر طلاق کےکاغذات بنوا رہا ہوں ،اور قانونی مجبوری کی بنا پر غیر ملکی کاغذات میں پہلی بیوی کی جگہ دوسری بیوی کا نام بطور بیوی لکھ رہا ہوں، حقیقۃً میں پہلی بیوی کو طلاق نہیں دے رہا، تو اس صورت میں اگر زبان سے بھی بیوی کو طلاق دینے کا اقرار نہ کرے تو پھر اس کی پہلی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله أو هازلا) أي فيقع قضاء وديانة كما يذكره الشارح، وبه صرح في الخلاصة معللا بأنه مكابر باللفظ فيستحق التغليظ، وكذا في البزازية. وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا فقال في البحر، وإن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة،ثم نقل عن البزازية والقنية لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا."
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:238، ط: ایچ ایم سعید کمپنی)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"الجواب حامدا و مصلیا: اگر لڑکا پہلے اس بات کا گواہ بنا لے کہ میں طلاق نامہ پر غلط دستخط کروں گا، یا عدالت میں طلاق کا غلط اقرار کروں گا، واقعۃً نہ طلاق دی ہے نہ طلاق دینا مقصود ہے تو اس کے اس جھوٹے اقرار یا جھوٹے دستخط سے طلاق واقع نہیں ہوگی: لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء ."
(کتاب الطلاق، باب وقوع الطلاق و عدم وقوعہ، ج:12، ص:244،ط:ادارۃ الفاروق، کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102062
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن