بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قیمتی پتھروں پر زکات کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے میں پہاڑوں سے معدنیات (قیمتی پتھر) نکلتاہے اس  میں زکات کا نصاب کیا ہے؟ ہم چالیسواں حصہ نکالتے ہیں کیا یہ درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں پہاڑوں سےنکلنے  والے قیمتی پتھر  پر نہ خمس ہے اور نہ  زکوۃ  ہے۔ البتہ اگر مذکورہ  پتھر فروخت کر دیے جائیں تو حاصل شدہ رقم پر دیگر زاموال زکوۃ کے ساتھ ملا کر اس پر بھی زکوۃ واجب ہوگی۔

السنن الكبيرى للبيهقي  میں ہے:

"حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا شريك، عن سالم، عن سعيد بن جبير قال: ليس في حجر زكاة إلا ما كان لتجارة، من جوهر ولا ياقوت ولا لؤلوا ولا غيره إلا الذهب والفضة".

(باب ما لا زكاة فيه مما أخذ من البحر من عنبر وغيره، ت: 8، 225، رقم الحديث: ط: مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: كمعادن الأحجار) كالجص والنورة والجواهر كاليواقيت والفيروزج والزمرد فلا شيء فيها بحر".

(کتاب الزکاۃ، باب زكاة الركاز، ج:2، ص: 319، ط: ایج ایم سعید)

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين. و تعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث فى زكوة الذهب، الفصل فى العروض، ج:1، ص:179، ط: مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144407101994

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں