ہماری مسجد کے چھ قالین ہیں، جن میں سے دو قالین مسجد کے خادم اور کچھ نمازیوں نے مل کر دھوئے، جس پر دو سو روپے لاگت آئی اور باقی چار قالین مسجد کمیٹی کے ایک رکن نے بغیر مشورہ کے دھوبی سے دھلوائے ،جس پر پندرہ سو روپے لاگت آئی جو مسجد کے فنڈ سے ادا کیے ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کمیٹی کے جس رکن نے بغیر مشورہ کے مسجد کے فنڈ سے یہ کام کیا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
کمیٹی کے مذکورہ رکن کوکمیٹی کےدیگرافراد کی طرف سے اگراختیارتھاکہ وہ مسجد کے فنڈ سےقالین دھوبی سے دھلواسکتاہے تواس کاقالین کو دھوبی سے دھلواکرمسجد کےفنڈ سے اجرت دیناجائز ہے،اوراگر اختیار کےبغیر اورکمیٹی کے دیگرافراد سے مشورہ کئےبغیرازخود دھلوائےتواس کی اجرت مسجد کے فنڈ سے اداکرنادرست نہیں۔
البحر الرائق میں ہے:
"ولو كان الوقف على عمارة المسجد هل للقيم أن يشتري سلما ليرتقي على السطح لكنس السطح وتطيينه أو يعطى من غلة المسجد أجر من يكنس السطح ويطرح الثلج ويخرج التراب المجتمع من المسجد.قال أبو نصر للقيم أن يفعل ما في تركه خراب المسجد كذا في الخانية الحادية."
(كتب الوقف،وقف المسجد أيجوز أن يبنى من غلته منارة،5/ 233،ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100513
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن