بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قمیص میں بٹنوں والی پٹی کس طرف لگانی چاہیے؟


سوال

عرض یہ ہے کہ ہم اپنی قمیض میں بٹن لگانے کے لیے جو تعویذ بنواتے ہیں اس کا سنت طریقہ کیا دائیں سے بائیں کی طرف بنانا ہے؟ جب کہ عموماً بائیں سے دائیں جانب بنایا جاتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں لباس کی کوئی خاص کیفیت اور وضع طے نہیں کی گئی ہے،  بلکہ اس کی  کچھ حدود  وشرائط  طے کرکے اس کی وضع اور کیفیت ہر ملک اورعلاقہ  کے لوگوں کے مزاج  پر  چھوڑ  دی گئی ہے۔  اب ان متعین حدود کی رعایت کرتے ہوئے جو لباس بھی کسی بھی وضع وکیفیت کے ساتھ پہنا جائے  وہ اسلامی وشرعی لباس کہلائے گا۔اگر اس میں سنتِ نبوی کی پیروی بھی کر لی گئی ہو تو مسنون لباس کہلائے گا اور ثواب بھی پائے گا۔اگر سنت  کی پیروی نہ کی ہو اور حدود میں رہ کے لباس پہناہو تو وہ جائز لباس کہلائے گا، لیکن سنت کی پیروی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ثواب نہیں پائےگا۔

لہذا   قرآن و حدیث میں لباس کی کوئی خاص کیفیت  مقرر نہیں کی گئی،نہ بٹن کی پٹی کا رخ سنت سے ملتا ہے ، البتہ لباس کے اصول بتادیے گئے ہیں، لہذا  لباس کی شرعی حدود کے  ساتھ   اگر  بٹن پٹی کا دایا ں پلہ اوپر  اور بایاں پلہ نیچے ہو تو دو وجہ سے یہ صورت بہتر  معلوم ہوتی ہے،  ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیامن یعنی سیدھی جانب کو پسند فرمایا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کفن پہنانے کی ترتیب بھی یہی ہوتی ہے۔البتہ اس كے خلاف كرنا بھی ممنوع اور خلافِ سنت نہيں ہو گا ۔

سنن ابی داود میں ہے:

"حدثنا معاوية بن قرة، حدثني أبي، قال: «أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من مزينة، فبايعناه، وإن قميصه لمطلق الأزرار»، قال: «فبايعته ثم أدخلت يدي في جيب قميصه، فمسست الخاتم» قال عروة: «فما رأيت معاوية ولا ابنه قط، إلا مطلقي أزرارهما في شتاء ولا حر، ولا يزرران أزرارهما أبدا»."

(سنن ابي داود، كتاب اللباس،‌‌باب في حل الأزرار، رقم الحديث:4084)

سنن نسائي ميں ہے:

"عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان «يحب ‌التيامن ما استطاع في طهوره وتنعله وترجله»."

(السنن الكبریٰ للنسائي، كتاب الطهارة، ‌‌بأي الرجلين يبدأ في الغسل، رقم الحديث:115)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307102455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں