بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قلیل المدتی سرمایہ کاری میں اختتام پر مال خریدنے کی شرط لگانا


سوال

اگر چلتے کاروبار میں ایک متعین مدت کے لیے نئی سرمایہ کاری (انویسٹمنٹ) شامل کی جائے اور شرکاء (کاروبار کا اصل مالک اور نیا شریک) یہ طے کرلیں کہ اس مدت کے بعد اصل مالک اس نئی سرمایہ کاری کو خرید لے گا اور شراکت ختم کرتے وقت کاروبار کا مکمل حساب کر کے نئے شریک کو متعین فیصد نفع دے دیا جائے گا اور کاروبار کے حساب میں کاروبار کی گڈول (Goodwill) کو بھی شامل کیا جائےگا۔

نیز کاروبار کی گڈول (Goodwill) متعین کرنے کے لیے ایک ایسا واضح فارمولا طے کر لیتے ہیں، جس میں جھگڑے کا امکان نہیں (مثلاً: Goodwill= 5% of Sales +Profit)

براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ عنایت فرمائیں کہ :

1۔ شرکت کی مذکورہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ اور اس شرط کی کیا حیثیت ہوگی؟

2۔ متعین مدت ختم ہونے پر اگر اصل مالک اس شرط کے مطابق نئے شریک کا حصہ نہ خریدے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

3۔  بوقتِ شراکت، اختتامِ شراکت کے لیے گڈول کا ایسا فارمولا طے کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

4۔ اختتامِ شراکت کے وقت گڈول سے متعلق اس فارمولے کی پابندی فریقین پر شرعاً لازم ہوگی یا نہیں؟ 

جواب

1۔ چلتے کاروبار میں  مذکورہ بالا شرط کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں،  اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ کے ساتھ مشروط کرنے سے منع فرمایا ہے،  جیسا کہ  بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"... ؛ لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة."

( كتاب المكاتب، فصل في الشرائط التي ترجع إلى نفس الركن، ٤ / ١٤٢، ط: دار الكتب العلمية )

 چلتے کاروبار میں شراکت کی صورت یہ ہے کہ سب سے پہلے کاروبارکے سرمایہ کی مکمل مقدار معلوم کی جائے، پھر اگر دوسرا شخص شریک ہونا چاہے تو وہ اس کاروبار کا آدھا حصہ مالک سے خرید لے، اس طرح دونوں کاروبار کی ہر چیز میں نصف نصف حصہ دار بن جائیں اور پھر نقد سرمایہ بھی مساوی طور پر لگائیں اور پھر نفع اور نقصان میں دونوں شریک ہوکر کاروبار کریں، اگر نصف نصف کے بجائے کمی بیشی کے ساتھ سرمایہ کاری کی جائے تب بھی جائز ہے۔

2۔  مسئولہ  صورت میں سرمایہ کار کا مال خریدنا تاجر پر لازم نہیں ہوگا۔

3۔ پس اختتام کے موقع پر مال خریدتے وقت باہمی رضامندی سے جو قیمت طے کرنا چاہیں، طے کرسکتے ہیں، قیمت طے کرنے میں گڈول  کا لحاظ رکھتے ہوئے قیمت میں کچھ فیصد زائد بھی  رکھ کر حساب کرنے کی بھی اجازت ہوگی، تاہم مال کے بغیر محض گڈول کی بنیاد پر کچھ فیصد وصول کرنا جائز نہ ہوگا۔

فتاوی محمود یہ میں ہے:

" گڈول یعنی  " نام" درحقیقت مال نہیں،  بلکہ بمنزلہ حیثیت عرفیہ کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں، قانون نے اس کو جوکچھ حیثیت دی ہے، وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے، اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیاجائے، جو بھائی حکمِ شرع کی قدر کرتے ہوئے عمل کرے گا ان شاء اللہ نقصان میں نہیں رہے گا، ایثار سے کام لینا دنیا وآخرت میں بہت زیادہ عزت ومنفعت کا ذریعہ ہے"۔

(باب بیع الحقوق المجردة، گڈول کی شرعی حیثیت، ١٦ / ١٧٨، ط: فاروقیہ  )

امدادالاحکام میں ہے:

"محض اس قانون کے مشہور ہونے سے قرض خواہوں کا حق عنداللہ ساقط نہ ہوگا اور حقوقِ گڈول کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ حقوقِ گڈول کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمار کی جائے، مگر چوں کہ تنہا یہ حقوق شرعاً  قیمتی نہیں؛ اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوقِ گڈول کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے، بلکہ اس کی طرف تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوقِ گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے۔"

( باب الحقوق،  کمپنی کو لمیٹڈ کرنا، اور حقوق گڈول کی قیمت لگانا، ٣ / ٤٥٢، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

الدر المختار میں ہے :

"و في الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، و على هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف، و فيها في آخر بحث تعارض العرف مع اللغة. المذهب عدم اعتبار العرف الخاص لكن أفتى كثير باعتباره، و عليه فيفتى بجواز النزول عن الوظائف بمال."

( كتاب البيوع، مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، ٤ / ٥١٨، ط: دار الفكر)

4۔ گڈول کا اعتبار کرنا لازم نہیں، تاہم باہمی  رضامندی  سے تفصیل بالا کے مطابق گڈ ول کا اعتبار کرنا جائز ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں