بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قلنگ وصول کرنے کا حکم


سوال

گھاس  کے لیے قلنگ   کا کیا حکم ہے؟ اگرجائز  نہیں تو جواز  کی  کیاصورت ہوگی ؟

جواب

واضح رہے کہ جو گھاس کسی زمین یا پہاڑ پر از خود  اُگ جائے تو ایسی گھاس مباح ہوتی ہے اور اُس کو کاٹنے سے قبل اُس کو فروخت کرنا یا کسی سے اُس کے عوض رقم وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا قلنگ کے عنوان سے  شمالی علاقہ جات یا دیگر علاقوں میں  جو رقم وصول کی جاتی ہے، اس کا وصول کرنا شرعاً جائز نہیں۔

جواز کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مویشی مالکان جس زمین پر رہائش پذیر ہیں، اُس زمین پر رہنے کے لیے زمین مالکان سے عقدِ اجارہ  یعنی کرایہ داری کا معاملہ کر لیں اور زمین کے عوض کرایہ وصول کرلیں اور مویشی کو گھاس بھی چراتے رہیں،  اس صورت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ قلنگ وصول کرنے والا زمین کا مالک ہو، اگر وہ مالک نہ ہو تو یہ صورت بھی جائز  نہ ہو گی۔

فتاویٰ حقانیہ میں ہے:

"اگرقلنگ خو در و گھاس کا معاو ضہ ہے تو  پھر جا ئز نہیں؛ کیوں کہ اس میں ما لک  کی محنت کو کو ئی دخل نہیں، اور اگر مملو کہ زمین یا پہا ڑ پر رہا ئش اور قیا م کرنے کا معا و ضہ ہو تو با قا عدہ اجا رہ کی صورت میں یہ ما ل جا ئز رہے گا۔"

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 66):

"(والمراعي) أي الكلأ (وإجارتها) أما بطلان بيعها فلعدم الملك لحديث: «الناس شركاء في ثلاث في الماء والكلأ والنار»."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں