بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قال النبی اور قال الرسول میں فرق


سوال

قال النبى و قال الرسول یہ دونوں لفظوں میں فرق ہے یا نہیں؟

جواب

احادیث میں قال النبی اور قال الرسول کے جو الفاظ آتے ہیں ،ان میں چونکہ  نبی اور رسول کا مصداق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہوتی ہے ،اس لیے ان دونوں جملوں میں کوئی فرق نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جل شانہ کے نبی بھی ہیں اور رسول بھی ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ  دیگر انبیاء کرام  کے لیے جب رسول اور نبی کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس میں یہ فرق ہے ''رسول''اسے کہتے ہیں جو نئی شریعت لے کر آیاہو،اوراس کی دوصورتیں ہیں:1۔ایک تویہ یہ کہ وہ شریعت بالکل ہی نئی ہو،جسے کسی نبی نے ان سے پہلے پیش نہ کیاہو۔2۔یایہ کہ اس سے پہلے وہ شریعت آچکی ہو لیکن قوم کے لیے وہ نئی ہو،جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شریعت ان کے والدحضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی کی شریعت تھی،لیکن قوم ''جرہم''کوحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعہ ہی اس کا علم ہوا،گویایہ شریعت اس قوم کے لیے نئی تھی۔

اور''نبی''اسے کہتے ہیں جس پر وحی آتی ہو ،خواہ وہ نئی شریعت لے کرآیاہو یاکسی قدیم شریعت ہی کامبلغ ہو جیسے اکثر انبیاء بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام ہی کی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے۔

 حکیم الامت  حضرت  تھانوی رحمہ اللہ  دونوں کےفرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ان دونوں  میں  عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے، ’’رسول‘‘ وہ ہے جو مخاطبین کو شریعتِ جدیدہ پہنچائے، خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شریعت، وہ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قدیم شریعت ہی تھی، لیکن ’’قوم جرہم‘‘ جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا، ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لیے نبی ہونا ضروری نہیں، جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں، یا جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے فرستادہ قاصد جن کو آیتِ قرآن(( اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ))[سورۃ یٰس :13]میں رسول کہا گیا ہے، حال آں کہ وہ انبیاء نہیں تھے۔
اور نبی وہ ہے جو صاحبِ وحی ہو خواہ شریعتِ جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعتِ قدیمہ کی، جیسے اکثر انبیاءِ بنی اسرائیل شریعتِموسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظِ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظِ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے، جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کیےگئے جیسا کہ  سورۃ مریم میں(( رَسُوْلاً نَّبِیًّا ))[ايت 54] آیا ہے، وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں، کوئی تضاد نہیں، لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے ((وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ ))[سورۃ الحج :52] میں تو اس جگہ  مقام کے قرینہ کی وجہ سے  لفظِ ِنبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعتِ سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے‘‘۔

(بیان القرآن، ۱/۶۴۸  مکتبہ رحمانیہ، لاھور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں