بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قیدی کی امامت، اور جیل میں جمعہ پڑھنے کے بارے میں شرعی تفصیل


سوال

ہم جیل میں  ملازم ہوتے ہیں اور جب قیدی نماز پڑھاتے ہیں تو ہم بھی اس کے پیچھے نیت باندھ دیتے ہیں کہ ہماری نماز جو ہے وہ قیدی کے پیچھے ہوتی ہے بہت سے لوگ کہتے ہیں آپ کی نماز قیدی کے پیچھے نہیں ہوتی۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کیا جیل میں جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے  ؟کہ ہم  اندر جیل میں قیدی کے پیچھے جمعہ پڑھتے ہیں،  بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ جیل میں جمعہ نہیں ہوتا میں نے کہا کہ ہم نے پوچھا ہے کہ ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ بہشتی گوہر میں لکھا ہوا  ہے کہ نہیں ہوتا ہے برائے مہربانی مجھے جواب عنایت فرمائے

جواب

1):صورتِ مسئولہ میں قیدی میں اگر امامت کی اہلیت پائی جارہی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے،اور قیدیوں میں سب سے زیادہ امامت کا حق دار وہ قیدی ہوگا جو نماز کے مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو  اور اُسے اتنا قرآنِ پاک یاد ہوکہ نماز میں باتجوید مسنون قراءت کے  بقدرقراءت کرسکے، بشرطیکہ وہ کھلے  عام کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہویا باطل عقائد کا حامل نہ ہو، اگر علم میں سب برابر ہوں تو اچھی تلاوت کرنے والا مستحق ہوگا، اور اگر تلاوت میں بھی سب یکساں ہوں تو ان میں سے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہوگا وہ امامت کا زیادہ حقدار ہوگا۔

2):     جمعہ کی ادائیگی کے لیے ایک شرط عام  اجازت کا ہونا ہے،البتہ اگر کسی جگہ نماز جمعہ پڑھی جارہی ہواور وہ جگہ شہر کے اندر ہو اور وہاں دفاعی،انتظامی یا حفاظتی وجوہ کی بناپر کچھ قواعد وضوابط مقرر ہوں تو اس آبادی کا اپنی  مخصوص جگہ میں جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہوگا،اس احاطہ میں رہنے والوں میں سے کسی کو شرکت سے ممانعت نہ ہو،اگر چہ باہر کے افراد کو آنے کی اجازت نہ دی جائے،لہذا  اگرجیل شہرکی آبادی کےاندرواقع ہواورحکام کی طرف سےجمعہ وعیدین پڑھنےکی اجازت بھی ہوتوجیل میں نمازجمعہ جائزہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و الأحقّ بالإمامة) تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنھر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحةً و فسادًا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، و قیل واجب، و قیل: سنة (ثم الأحسن تلاوۃ) و تجویدًا (للقراءۃ، ثم الأروع) أي: الأکثر اتقاء للشبھات."

( كتاب الصلاة ، باب الإمامة، ، ج:1، ص: 557، ط: سعید) 

وفیہ ایضاً:

"(و) السابع: (الإذن العام)  من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين كافي فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة لأن الإذن العام مقرر لأهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الأنهر معزيا لشرح عيون المذاهب قال: وهذا أولى مما في البحر والمنح فليحفظ (فلو دخل أمير حصنا) أو قصره (وأغلق بابه) وصلى بأصحابه (لم تنعقد) ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره

و في الرد : (قوله لأن الإذن العام مقرر لأهله) أي لأهل القلعة لأنها في معنى الحصن والأحسن عود الضمير إلى المصر المفهوم من المقام لأنه لا يكفي الإذن لأهل الحصن فقط بل الشرط الإذن للجماعات كلها كما مر عن البدائع (قوله: وغلقه لمنع العدو إلخ) أي أن الإذن هنا موجود قبل غلق الباب لكل من أراد الصلاة، والذي يضر إنما هو منع المصلين لا منع العدو ...... (قوله: أو قصره) كذا في الزيلعي والدرر وغيرهما، وذكر الواني في حاشية الدرر أن المناسب للسياق أو مصره بالميم بدل القاف.

قلت: ولا يخفى بعده عن السياق. وفي الكافي التعبير بالدار حيث قال: والإذن العام وهو أن تفتح أبواب الجامع ويؤذن للناس، حتى لو اجتمعت جماعة في الجامع وأغلقوا الأبواب وجمعوا لم يجز، وكذا السلطان إذا أراد أن يصلي بحشمه في داره فإن فتح بابها وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاته شهدتها العامة أو لا وإن لم يفتح أبواب الدار وأغلق الأبواب وأجلس البوابين ليمنعوا عن الدخول لم تجز لأن اشتراط السلطان للتحرز عن تفويتها على الناس وذا لا يحصل إلا بالإذن العام. اهـ.

قلت: وينبغي أن يكون محل النزاع ما إذا كانت لا تقام إلا في محل واحد، أما لو تعددت فلا لأنه لا يتحقق التفويت كما أفاده التعليل تأمل (قوله لم تنعقد) يحمل على ما إذا منع الناس فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر ط.

قلت: ويؤيده قول الكافي وأجلس البوابين إلخ فتأمل (قوله وأذن للناس إلخ) مفاده اشتراط علمهم بذلك، وفي منح الغفار وكذا أي لا يصح لو جمع في قصره لحشمه ولم يغلق الباب ولم يمنع أحدا إلا أنه لم يعلم الناس بذلك. اهـ."

 (کتاب الجمعة ، ج :2، ص:152، ط: سعید)

"الفتاوی الھندیة" میں ہے: 

"(ومنها: الإذن العام) و هو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافةً حتى أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، و كذلك السلطان إذا أراد أن يجمع بحشمه في داره فإن فتح باب الدار و أذن إذنًا عامًّا جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ج:1، ص:148، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے: 

"(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا) الخطبة (سوى الإمام) بالنص لأنه لا بد من الذاكر وهو الخطيب وثلاثة سواه بنص -{فاسعوا إلى ذكر الله} 

و في الرد: (قوله سوى الإمام) هذا عند أبي حنيفة ورجح الشارحون دليله واختاره المحبوبي والنسفي كذا في تصحيح الشيخ قاسم (قوله بنص{فاسعوا} [الجمعة: 9]لأن طلب الحضور إلى الذكر متعلقا بلفظ الجمع وهو الواو يستلزم ذاكرا فلزم أن يكون مع الإمام جمع وتمامه في شرح المنية."

(کتاب الصلاۃ باب الجمعۃ ج:2، ص:151، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں