ایک عورت کا خاوند ایک سال سے قید میں ہے،میاں بیوی کا کوئی رابطہ بھی نہیں ہوا،کیامذکورہ عورت عدالت سے خلع لے سکتی ہے؟
واضح رہے کہ شریعت میں جس طرح طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اسی طرح مجبوری میں عورت کو بھی خلع کا اختیار دیا گیا ہے،اس لیے اگرکوئی عورت خلع لینا چاہے تو ا س کے لئےضروری ہے شوہر ا س خلع پر راضی بھی ہو کیونکہ شرعی طور پر خلع کے معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میںاگر عورت شوہر کی رضامندی کے ساتھ خلع لے لیتی ہے اورشوہر اس پر دستخط کردے تو پھر شرعاً خلع قرار پائے گا اور نکاح ٹوٹ جائے گا۔
مبسوط سرخسی میں ہے:
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:6،ص173،ط:دارالمعرفه)
تبیین الحقائق میں ہے:
"وفي الشرع عبارة عن أخذ المال بإزاء ملك النكاح بلفظ الخلع وشرطه شرط الطلاق وحكمه وقوع الطلاق البائن وصفته يمين من جهته معاوضة من جهتها."
(كتاب الطلاق،باب الخلع،٢٦٧/٢،ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100101
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن