بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانیوں کے لڑیچر پڑھنا اور اس سے کوئی بات نقل کرنا


سوال

 یہاں ایک شخص اجرت پر مضامین لکھتا ہے، وہ اپنے اسلامی مضامین میں قادیانیوں کے لٹریچر سے بھی مواد نکال کر شامل کر لیتا ہے، جب ہم اسے ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں تو وہ یہ دلائل دیتا ہےکہ 1- حکمت مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے جہاں سے ملے لے لینی چاہیے 2- میں قادیانیوں کا براہ راست حوالہ شامل نہیں کرتا، بل کہ لکھ دیتا ہوں کہ ایک مصنف نے یہ لکھا ہے اور نام نہیں لیتا ہم اسے منع کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے بھی برا اثر پڑے گا کہ قادیانیوں کی باتیں مسلمانوں میں جگہ پائیں گی مگر وہ پھر بھی نہیں مانتا، اس لیے ہمیں فتویٰ درکار ہے تا کہ اگر وہ غلط ہے تو ہم اسے روک سکیں اور اگر ہم غلطی پر ہیں تو ہم آئندہ اسے کچھ نہ کہیں،سوال درج ذیل ہیں، براہ کرم جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں ۔

سوال1: کیا کسی مرتد کی کتاب سے اسلامی مضمون لکھنے کے لیے مواد لینا جائز ہے؟

سوال2: کیا حکمت کی بات کافر، مرتد اور رندیق وغیرہ سب سے یکساں طور پر مل سکتی ہے؟

سوال3: اور کافرمرتد اور زندیق وغیرہ سے حکمت کی بات لے کر ہم مسلمانوں میں پھیلا سکتے ہیں؟

جواب

1،3۔واضح رہے کہ  کافروں کی کتابیں  پڑھنا اور ان کتابوں سے کوئی ایسی بات نقل کرنا کہ جس کا تعلق شریعت اور دین سے ہو شرعًا درست نہیں ہے، اگر  پڑھنے والا اسلامی تعلیمات کو  صحیح طور پر جانتاہو،اپنے ایمان اور عقائد پر پختہ ہو ،اور وہ ان کتب کا مطالعہ اس لیے کرے تاکہ مخالفین کے  اسلام اور مسلمانوں  پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دے سکے،تو اس کے لیے ان کتب کو پڑھنا جائز ہے ، عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے؛ لہٰذا اسلامی مضامین لکھنے کے لیے قادیانیوں کی کتابوں سے استفادہ درست نہیں ہے۔ اسلامی مضامین کے مواد کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات اور اکابر کی مستند تحریرات کافی و شافی ہیں۔

باقی وہ کتابیں  جن کاتعلق شریعت اور دین سے نہ ہو ،بلکہ وہ دنیوی فنون سے متعلق ہوں تو ان کتابوں کو بقدر ضرورت پڑھنے اور ان سے کوئی بات نقل کرنے کی گنجائش ہے۔

2۔حکمت کی بات کافر اور مشرک  بھی کرسکتا ہے، لیکن جہاں کوئی  شخص مذہب کے معاملے میں گمراہی کا شکار ہوکر  تحریر لکھے، وہ حکمت کی بات نہیں ہوتی؛ لہٰذا عام مسلمانوں کے  لیے اہلِ حق کے علاوہ دیگر  مصنفین کی کتابیں پڑھنا اور اس سے کوئی بات آگے نقل کرنافتنہ سے خالی نہیں، اس  لیے کہ اہلِ  باطل کی   تحریروں میں ان کے باطل نظریات اور مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ پڑھنے والے اور سننے والے کے ذہن پر اثر کرتے ہیں اور   سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان و اسلام میں رخنہ ڈالتے ہیں ، لہذا عام لوگوں کے لئے اس سے اجتناب ضروری ہے ،جو  اہلِ  علم اپنے علم اور عقیدہ میں پختہ ہوں، ان کے  لیے اہلِ  باطل کی اس طرح کی کتابیں  ان کا جواب دینے کی غرض سے پڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے، نہ کہ ان سے استفادے کی غرض سے ۔

وفي سنن الترمذي:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الكلمة الحكمة ‌ضالة ‌المؤمن، فحيث وجدها فهو أحق بها."

 (5/ 51 ،الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر: (أن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنسخة من التوراة فقال يا رسول الله هذه نسخة من التوراة فسكت فجعل يقرأ ووجه رسول الله يتغير فقال أبو بكر ثكلتك الثواكل ما ترى ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظر عمر إلى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله صلى الله عليه وسلم رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وأدرك نبوتي لاتبعني)رواه الدارمی."

(‌‌باب الاعتصام بالكتاب والسنة، الفصل الثالث، ج:1، ص:51، ط:المكتب الإسلامي)

وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:

"وفي الحديث نهي بليغ عن العدول من الكتاب والسنة إلى غيرهما من كتب الحكماء والفلاسفة (رواه الدارمي)."

 (1/ 277،الناشر: دار الفكر، بيروت)

وفي سنن أبي داود :

"أن يزيد بن  عميرة- وكان من أصحاب معاذ بن جبل- أخبره، قال: "كان لا يجلس مجلسا للذكر حين يجلس إلا قال: الله حكم قسط، هلك المرتابون. فقال معاذ بن جبل يوما: إن من ورائكم فتنا يكثر فيها المال، ويفتح فيها القرآن حتى يأخذه المؤمن والمنافق، والرجل والمرأة، والكبير (1) والصغير، والعبد والحر، فيوشك قائل أن يقول: ما للناس لا يتبعوني وقد قرأت القرآن؟ ! ما هم بمتبعي حتى أبتدع لهم غيره! فإياكم وما ابتدع، فإن ما ابتدع ضلالة، وأحذركم زيغة الحكيم، فإن الشيطان قد يقول كلمة الضلالة على لسان الحكيم، وقد يقول المنافق كلمة الحق قال: قلت لمعاذ: مايدريني- رحمك الله- أن الحكيم قد يقول كلمة الضلالة، وأن المنافق قد يقول كلمة الحق؟ ! قال: بلى، اجتنب من كلام الحكيم المشتهرات التي يقال لها: ما هذه؟ ولا يثنينك ذلك عنه، فإنه لعله أن يراجع، وتلق الحق إذا سمعته، فإن على الحق نورا.قال أبو داود: قال معمر، عن الزهري في هذا الحديث:ولا ينئينك ذلك عنه مكان يثنينك. وقال صالح بن كيسان عن الزهري، في هذا : بالمشتبهات مكان المشتهرات، وقال: لا يثنينك" كما قال عقيل، وقال ابن إسحاق، عن الزهري قال: بلى، ما تشابه عليك من قول الحكيم حتى تقول: ما أراد بهذ الكلمة؟ !"

(باب في لزوم السنة،7 / 21 ،الناشر: دار الرسالة العالمية)

وفي بذل المجهود في حل سنن أبي داود:

"(قال) يزيد بن عميرة: (قلت لمعاذ: ما يدريني- رحمك الله- أن الحكيم قد يقول كلمة الضلالة، وأن المنافق قد يقول كلمة الحق؟ ! قال) معاذ: (بلى، اجتنب من كلام الحكيم المشتهرات التي يقال لها) أي المشتهرات: (ما هذه؟ ) أي يقول الناس في شأنها هذه الكلمة إنكارا.

وكتب مولانا محمد يحيى المرحوم في "التقرير": قوله: "ما يدريني"، يعني بذاك أني كيف لي الفرق بين حقه وباطله؟ !

وحاصل الجواب: أن ما أنكر عليه العلماء باطل، وكذلك ما أنكرت عليه إن كنت أهل علم."

(13/ 15،الناشر: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فتاوی شامی میں ہے:

"واختار سيدي عبد الغني ما في الخلاصة، وأطال في تقريره، ثم قال: وقد نهينا عن النظر في شيء منها سواء نقلها إلينا الكفار أو من أسلم منهم."

(كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:175، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"السؤال عن الأخبار المحدثة في البلدة وغير ذلك المختار أنه لا بأس بالاستخبار والإخبار كذا في الخلاصة ... و تعلم علم النجوم لمعرفة القبلة وأوقات الصلاة لا بأس به والزيادة حرام كذا في الوجيز للكردري.تعلم الكلام والنظر والمناظرة فيه وراء قدر الحاجة مكروه وقيل الجواب في هذه المسألة إن كثرة المناظرة والمبالغة في المجادلة مكروه لأن ذلك يؤدي إلى إشاعة البدع والفتن وتشويش العقائد وهذا ممنوع جدا كذا في جواهر الأخلاطي.ولا يناظر في المسألة الكلامية إذا لم يعرفها على وجهها وكان محمد - رحمه الله تعالى - يناظر فيها كذا في الملتقط." 

(كتاب الكراهية، الباب الثلاثون في المتفرقات، ج:5، ص:377، ط:دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"ومن العلوم المذمومة علوم الفلاسفة فإنه لا يجوز قراءتها لمن لم يكن متجرا في العلم وسائر الحجج عليهم وحل شبهاتهم والخروج عن إشكالاتهم."

(كتاب الكراهية، الباب الثلاثون في المتفرقات، ج:5، ص:378، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں