بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانیوں سے خریدو فروخت کرنے کا حکم


سوال

میرا ایک دوست  لندن میں اپنے بھائی کیMini Market میں کام کرتا ہے ، اس کا بھائی قادیانی سے سامان خریدتا ہے اور ادھار کا لین دین کرتا ہے ۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اس طرح قادیانیوں کے ساتھ لین دین کی جاسکتی ہے؟ اور میرے دوست نے بھی اپنے بھائی سے اس بارے میں بات کی، لیکن اس کا بھائی کہتا ہے کہ ہم جب گوروں اور عیسائیوں کے ساتھ کام کرسکتے ہیں تو قادیانیوں کے ساتھ کیوں نہیں کرسکتے؟

مذکورہ بھائی اس کا بڑا بھائی ہے ،اسے حکم بھی نہیں دے سکتا ، آپ اس سلسلے میں ہمارے رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ   اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم  ترین عقیدہ ’’ختم نبوت کا عقیدہ ‘‘ ہے، جس پرتمام مسلمانان ِ عالم کا اتفاق ہے، اور جو شخص اس عقیدے کامنکرہو وہ کافر اور زندیق ہے اور ایسے شخص سے میل جول ، لین دین اور تعلقات رکھنا ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ غیرتِ ایمانی  اوررسول اللہ ﷺ سےمحبت کے بھی منافی ہے ، اس لیےکہ ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بدترین قسم’’ زندیق ‘‘قرار دیتی ہے ،قادیانی نہ صرف اس عقیدے(عقیدہ ختم نبوت) کے منکر ہیں، بلکہ خود کو مسلمان کہلاتے اور اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا قادیانیوں سے کسی قسم کا تعلق رکھنا، چاہے وہ خریدوفروخت کی صورت میں ہو یا کسی اور طرح سے ہو، ناجائز اور حرام ہے ،ایسے شخص کو اس طرح کے افعال سے احتراز کرنا چاہیے ۔

چنانچہ کفا یت  المفتی میں ہے:

’’اگر دین کو فتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہو تو(قادیانیوں سے ) قطع تعلق کرلینا چاہئے، ان سے رشتہ ناتا کرنا، ان کے ساتھ خلط ملط رکھنا، جس کا دین اورعقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے۔‘‘

:1، ص:365،ط: دارالاشاعت)

مفتی  رشید احمد لدھیانوی ؒاحسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:

’’ایسا شخص جو صوم صلوٰۃ کا پابند ہے، لیکن اس کے تعلقات قادیانی جماعت کے ساتھ ہیں، اگر وہ دل سے بھی ان کو اچھا سمجھتا ہو، تو وہ مرتد ہے اور بلا شبہ خنزیر سے بدتر ہے ، اس سے تعلقات رکھنا ناجائزہے ، اگر وہ مسجد کے  لیے چندہ دیتا ہے تو اسے وصول کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر وہ قادیانیوں کے عقائد سے متفق نہیں اور نہ ہی ان کو اچھا سمجھتا ہے ، بلکہ صرف تجارت وغیرہ ، دنیوی معاملات کی حد تک ان سے تعلق رکھتاہے، تو یہ شخص مرتد نہیں ، البتہ بہت سخت مجرم اور فاسق ہے ۔ قادیانی زندیق ہیں جن کا حکم عام مرتد سے بھی زیادہ سخت ہے ، مرتد اور اس کا بیٹا اپنے مال کے مالک نہیں ، لہذا ان کی بیع وشراء ، اجارہ و استجارہ ، ہبہ کا لین دین وغیرہ کوئی تصرف بھی صحیح نہیں ، البتہ پوتے نے جو مال خود کمایا ہو وہ اس میں تصرف کرسکتا ہے ، مگر زندیق کا پوتا بھی اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں اور اس کے تصرفات نافذ نہیں ، اس لئے قادیانی سے کسی ذریعہ سے بھی کوئی مال لیا تو وہ حلال نہیں ۔تجارت وغیرہ معاملات کے علاوہ بھی قادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی میل جول رکھنا جائز نہیں ۔ اس میں یہ مفاسد ہیں :اس میں قادیانیوں کے ساتھ تعاون ہے ،اس قسم کے معاملات میں عوام قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگتے ہیں ،اس طرح قادیانیوں کو اپنا جال پھیلانے کے مواقع ملتے ہیں ،اس لئے قادیانیوں سے لین دین اور دیگر ہر قسم کے معاملات میں قطع تعلق ضروری ہے ان سے تعلقات رکھنے والا آدمی اگر چہ ان کو برا سمجھتا ہو قابل ملامت ہے ، ایسے شخص کو سمجھانا دوسرے مسلمانوں پر فرض ہے ، واللہ تعالی اعلم ۔‘‘

(کتاب الایمان والعقائد،قادیانیوں سے تعلق رکھنے کا حکم ،ج:۱،ص:۴۶،ط:سعید)

نیز قادیانیوں اوردوسرےغیرمسلموں سے کاروبارکرنے میں فرق ہے، قادیانیوں کے علاوہ باقی غیرمسلم قومیں اپنےآپ کو غیر مسلم تسلیم کرتی ہیں ، جب کہ قادیانی اپنےآپ کو غیر مسلم  تسلیم نہیں کرتے،بلکہ ہم مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور   اپنے آپ کو مسلمان ظاہرکرکے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں ،دیگر غیرمسلموں سے کوئی مسلمان دھوکانہیں  کھاسکتا ؛کیوں  کہ ان کی ہیئت بالکل واضح ہے، اسی وجہ سے تو خود آپﷺ نے بھی غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کی ہے، البتہ غیرمسلموں کےساتھ بھی کاروبار اس وقت درست ہے کہ مسلمان کا دینی لحاظ سے بھی کوئی نقصان نہ ہو اور مسلمانوں کی طاقت وقوت بھی اس سے متاثر نہ ہوتی ہو اور کاروبار میں شرعی اصولوں کالحاظ رکھاجاتاہو۔

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعۃ رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

" و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

(المسوی شرح المؤطا،ج:،ص:13،ط: رحیمیہ دہلی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100998

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں