بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی کو زمین کرائے پر دینے اور قادیانی کو اسکول میں ٹیچر (استاد) رکھنے کا حکم


سوال

1۔کوئی مسلمان اپنی جگہ/ زمین کسی قادیانی کو اسکول یا کسی دوسرے کام کے لیے کرائے پر دے سکتا ہے؟

2۔ کوئی مسلمان اپنے اسکول میں کسی قادیانی کو ٹیچر (استاد) رکھ سکتا ہے؟ اگر رکھا ہے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے اہم ترین عقیدہ ’’عقیدہ ختمِ نبوت‘‘  ہے،  جس پر ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں، لیکن قادیانی نہ صرف قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے ثابت شدہ اس ’’عقیدہ ختمِ نبوت‘‘ کے منکر ہیں اور مرزاقادیانی کو پیغمبر تسلیم کرتے ہیں ، بلکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے اور اس کی تشہیر کر کے مسلمانوں کو دھوکا  دینے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے ، جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے، نیز اس فرقے کے بانیان کے مطابق  جو  مرزا قادیانی کو نہ مانے وہ  مسلمان نہیں ہے، یعنی وہ خود کو مسلمان اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، یہ بات باطل ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کا دجل و فریب ہے،  اس لیےکہ ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بدترین قسم’’ زندیق ‘‘قرار دیتی ہے، لہٰذا قادیانیوں کے ساتھ میل جول رکھنا، لین دین کرنا یا کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا   ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ غیرتِ ایمانی  اوررسول اللہ ﷺ سےمحبت کے بھی منافی ہے،اس لیے ان سے زندگی کے کسی بھی معاملے  میں تعلق قائم کرنے  سے احتراز کرنا ضروری ہے (گو غیرمسلموں سے دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں، مگر ان کا معاملہ دیگر غیرمسلموں سے  جدا اور  سخت ہے)۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے کسی بھی قادیانی کو اپنی جگہ/ زمین کسی بھی مقصد کے لیے کرائے پر دینا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی بھی مسلمان کا کسی بھی قادیانی کو اپنے اسکول میں ٹیچر (استاذ) رکھنا جائز نہیں ہے۔ ، اگر کوئی شخص شرعی حکم معلوم ہونے کے باوجود کسی قادیانی سے تعلق باقی رکھتا ہے مثلا کسی قادیانی کو اپنے اسکول میں ملازم رکھتا ہے تو وہ شرعی حکم کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔

چنانچہ کفا یت  المفتی میں ہے:

"اگر دین کو فتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہو تو(قادیانیوں سے ) قطع تعلق کرلینا چاہئے، ان سے رشتہ ناتا کرنا، ان کے ساتھ خلط ملط رکھنا، جس کا دین اورعقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے"۔

:1، ص:365،ط: دارالاشاعت)

مفتی  رشید احمد لدھیانوی ؒاحسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:

"ایسا شخص جو صوم صلوٰۃ کا پابند ہے، لیکن اس کے تعلقات قادیانی جماعت کے ساتھ ہیں، اگر وہ دل سے بھی ان کو اچھا سمجھتا ہو، تو وہ مرتد ہے اور بلا شبہ خنزیر سے بدتر ہے ، اس سے تعلقات رکھنا ناجائزہے ، اگر وہ مسجد کے  لیے چندہ دیتا ہے تو اسے وصول کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر وہ قادیانیوں کے عقائد سے متفق نہیں اور نہ ہی ان کو اچھا سمجھتا ہے ، بلکہ صرف تجارت وغیرہ ، دنیوی معاملات کی حد تک ان سے تعلق رکھتاہے، تو یہ شخص مرتد نہیں ، البتہ بہت سخت مجرم اور فاسق ہے ۔ قادیانی زندیق ہیں جن کا حکم عام مرتد سے بھی زیادہ سخت ہے ، مرتد اور اس کا بیٹا اپنے مال کے مالک نہیں ، لہذا ان کی بیع وشراء ، اجارہ و استجارہ ، ہبہ کا لین دین وغیرہ کوئی تصرف بھی صحیح نہیں ، البتہ پوتے نے جو مال خود کمایا ہو وہ اس میں تصرف کرسکتا ہے ، مگر زندیق کا پوتا بھی اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں اور اس کے تصرفات نافذ نہیں ، اس لئے قادیانی سے کسی ذریعہ سے بھی کوئی مال لیا تو وہ حلال نہیں ۔تجارت وغیرہ معاملات کے علاوہ بھی قادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی میل جول رکھنا جائز نہیں ۔ اس میں یہ مفاسد ہیں :اس میں قادیانیوں کے ساتھ تعاون ہے ،اس قسم کے معاملات میں عوام قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگتے ہیں ،اس طرح قادیانیوں کو اپنا جال پھیلانے کے مواقع ملتے ہیں ،اس لئے قادیانیوں سے لین دین اور دیگر ہر قسم کے معاملات میں قطع تعلق ضروری ہے ان سے تعلقات رکھنے والا آدمی اگر چہ ان کو برا سمجھتا ہو قابل ملامت ہے ، ایسے شخص کو سمجھانا دوسرے مسلمانوں پر فرض ہے ، واللہ تعالی اعلم "۔

(کتاب الایمان والعقائد،قادیانیوں سے تعلق رکھنے کا حکم ،ج:۱،ص:۴۶،ط:سعید)

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعۃ رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

" و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

(المسوی شرح المؤطا،ج:،ص:13،ط: رحیمیہ دہلی)

الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (تفسیرِ زمخشری) میں ہے:

"وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ. (113)

قرئ: ولا تركنوا، بفتح الكاف وضمها مع فتح التاء. وعن أبى عمرو: بكسر التاء وفتح الكاف، على لغة تميم في كسرهم حروف المضارعة إلا الياء في كل ما كان من باب علم يعلم. ونحوه قراءة من قرأ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ بكسر التاء. وقرأ ابن أبى عبلة: ولا تركنوا، على البناء للمفعول، من أركنه إذا أماله، والنهى متناول للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومدّ العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم".

(سورة الهود، رقم الآية:113، ج:2، ص:433، ط:دارالكتاب العربى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں