بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی کے اسٹور پر نوکری کرنا


سوال

اسلام آباد میں ایک بڑا سٹور ہے جس کا مالک قادیانی ہے وہاں کا سپروائزر ایک مسلمان شخص ہے وہاں جاب کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم  ترین عقیدہ ’’ختم نبوت کا عقیدہ ‘‘ ہے، جس پرتمام مسلمانان ِ عالم کا اتفاق ہے،اور جو شخص اس عقیدے کامنکرہو وہ کافر اور زندیق ہے اور ایسے شخص سے میل جول ، لین دین اور تعلقات رکھنا ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ غیرتِ ایمانی  اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمحبت کے بھی منافی ہے ،اس لیےکہ ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بدترین قسم’’ زندیق ‘‘قرار دیتی ہے ،قادیانی  اس عقیدے(عقیدہ ختم نبوت) کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو  مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے کفر پر اسلام کا لیبل لگاتے ہیں۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ  قادیانیوں اوردوسرےغیرمسلموں سے مالی معاملات کرنے میں فرق ہے، قادیانیوں کے علاوہ باقی غیرمسلم قومیں اپنےآپ کو غیر مسلم تسلیم کرتی ہیں ، جب کہ قادیانی اپنےآپ کو غیر مسلم  تسلیم نہیں کرتے،بلکہ ہم مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور   اپنے آپ کو مسلمان ظاہرکرکے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں ،دیگر غیرمسلموں سے کوئی مسلمان دھوکانہیں  کھاسکتا ؛کیوں  کہ ان کی ہیئت بالکل واضح ہے، اسی وجہ سے تو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کی ہے، البتہ غیرمسلموں کےساتھ بھی کاروبار اس وقت درست ہے کہ مسلمان کا دینی لحاظ سے بھی کوئی نقصان نہ ہو اور مسلمانوں کی طاقت وقوت بھی اس سے متاثر نہ ہوتی ہو اور کاروبار میں شرعی اصولوں کالحاظ رکھاجاتاہو۔

لہذا  مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں قادیانی کے مذکورہ اسٹور پر نوکری کر نا ناجائز ہے، مذکورہ سپر وائز کو چاہیے کہ کسی دوسری جگہ حلال نوکری تلاش کرے اور اس نوکری کو ترک کردے اور جب تک دوسری جگہ کوئی جائز اور حلال روزی کا انتظام نہ ہو اس وقت تک اس جگہ نوکری کرسکتا ہے اور جیسے ہی دوسری جگہ ملازمت ملے،  قادیانیوں کے ہاں ملازمت ترک کردے۔

چنانچہ کفا یت  المفتی میں ہے:

’’اگر دین کو فتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہو تو(قادیانیوں سے ) قطع تعلق کرلینا چاہئے، ان سے رشتہ ناتا کرنا، ان کے ساتھ خلط ملط رکھنا، جس کا دین اورعقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے۔‘‘

(ج:1، ص:365،ط: دارالاشاعت)

مفتی  رشید احمد لدھیانوی ؒاحسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:

’’ایسا شخص جو صوم صلوٰۃ کا پابند ہے، لیکن اس کے تعلقات قادیانی جماعت کے ساتھ ہیں، اگر وہ دل سے بھی ان کو اچھا سمجھتا ہو، تو وہ مرتد ہے اور بلا شبہ خنزیر سے بدتر ہے ، اس سے تعلقات رکھنا ناجائزہے ، اگر وہ مسجد کے  لیے چندہ دیتا ہے تو اسے وصول کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر وہ قادیانیوں کے عقائد سے متفق نہیں اور نہ ہی ان کو اچھا سمجھتا ہے ، بلکہ صرف تجارت وغیرہ ، دنیوی معاملات کی حد تک ان سے تعلق رکھتاہے، تو یہ شخص مرتد نہیں ، البتہ بہت سخت مجرم اور فاسق ہے ۔ قادیانی زندیق ہیں جن کا حکم عام مرتد سے بھی زیادہ سخت ہے ، مرتد اور اس کا بیٹا اپنے مال کے مالک نہیں ، لہذا ان کی بیع وشراء ، اجارہ و استجارہ ، ہبہ کا لین دین وغیرہ کوئی تصرف بھی صحیح نہیں ، البتہ پوتے نے جو مال خود کمایا ہو وہ اس میں تصرف کرسکتا ہے ، مگر زندیق کا پوتا بھی اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں اور اس کے تصرفات نافذ نہیں ، اس لئے قادیانی سے کسی ذریعہ سے بھی کوئی مال لیا تو وہ حلال نہیں ۔تجارت وغیرہ معاملات کے علاوہ بھی قادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی میل جول رکھنا جائز نہیں ۔ اس میں یہ مفاسد ہیں :اس میں قادیانیوں کے ساتھ تعاون ہے ،اس قسم کے معاملات میں عوام قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگتے ہیں ،اس طرح قادیانیوں کو اپنا جال پھیلانے کے مواقع ملتے ہیں ،اس لئے قادیانیوں سے لین دین اور دیگر ہر قسم کے معاملات میں قطع تعلق ضروری ہے ان سے تعلقات رکھنے والا آدمی اگر چہ ان کو برا سمجھتا ہو قابل ملامت ہے ، ایسے شخص کو سمجھانا دوسرے مسلمانوں پر فرض ہے ، واللہ تعالی اعلم ۔‘‘

(کتاب الایمان والعقائد،قادیانیوں سے تعلق رکھنے کا حکم ،ج:1،ص:46،ط:سعید)

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعۃ رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

"و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

(ج:،ص:13،ط: رحیمیہ دہلی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں