بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی شعائرِ اسلام کیوں استعمال نہیں کر سکتے ؟


سوال

قادیانی شعائر اسلام کیوں استعمال نہیں کر سکتے ؟

جواب

’’شعائر‘‘ کالفظ ’’شعیرہ‘‘ یا ’’شعارہ‘‘ کی جمع ہے، جس کے معنی  ہیں کسی چیز کی وہ مخصوص علامت جس سے اس کی پہچان ہو، لہذا ’’شعائر اسلام‘‘ سے مراد اسلام کی وہ مخصوص علامات ہیں جن سے کسی شخص کا اسلام معلوم ہو اور جو شخص ان علامات کا اظہار کرے اسے مسلمان سمجھاجائے اور دینی  وسماجی معاملات میں اس کے ساتھ مسلمانوں والا برتاؤ کیا جائے، جیسا کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  صاحب رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھا ہے: 

’’لفظ شعائر جس کا ترجمہ نشانیوں سے کیا گیا ہے، شعیرۃ کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں: علامت، اسی لیے شعائر یا شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو، شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جائے گا جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں، جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ اور سنت کے موافق داڑھی وغیرہ۔‘‘

(سورۂ مائدہ، آیت:2، ج:3، ص: 18)

 جب  شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جاتا ہےجو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں،اور   قادیانی شرعاً اور قانوناً مسلمان نہیں  تو   ان کا شعائر اسلام کو استعمال کرنا شر عاً دھوکہ دہی  اور قانوناً جرم  ہے،لہذا کسی قادیانی کو شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ہدایہ کی شرح ’’البنایۃ‘‘ میں ہے: 

"(شعائر الشرع وأحكامه) ش: الشعائر... وهو جمع شعارة، وقال الأصمعي: جمع شعيرة، وإليه مال السراج، والأولى هو الأول؛ لأن الشعيرة واحدة الشعير الذي هو من الحبوب؛ والشعيرة أيضا: البدنة تهدى. والشعارة كل ما جعل علما لطاعة الله تعالى. قال الجوهري: الشعائر: أفعال الحج، وكل ما جعل علما لطاعة الله عز وجل. ويقال: المراد بها: ما كان أداؤه على سبيل الاشتهار، كأداء الصلاة بالجماعة وصلاة الجمعة والعيدين، والأذان، وغير ذلك مما كان فيه اشتهار."

(مقدمة الكتاب، 1 / 114، ط: دار الكتب العلميه، بيروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"فنقول - وبالله التوفيق: إن أهل الذمة يؤخذون بإظهار علامات يعرفون بها، ولا يتركون يتشبهون بالمسلمين في لباسهم ومركبهم وهيئتهم، فيؤخذ الذمي بأن يجعل على وسطه كشحا مثل الخيط الغليظ، ويلبس قلنسوة طويلة مضروبة ويركب سرجا على قربوسه مثل الرمانة، ولا يلبس طيلسانا مثل طيالسة المسلمين ورداء مثل أردية المسلمين، والأصل فيه ما روي أن عمر بن عبد العزيز رحمه الله مر على رجال ركوب ذوي هيئة فظنهم مسلمين فسلم عليهم، فقال له رجل من أصحابه: أصلحك الله، تدري من هؤلاء؟ فقال: من هم؟ فقال: هؤلاء نصارى بني تغلب فلما أتى منزله أمر أن ينادي في الناس أن لا يبقى نصراني إلا عقد ناصيته، وركب الإكاف."

(کتاب السیر، فصل في بيان ما يعترض من الأسباب المحرمة للقتال،ج: 7، ص: 117،ط: دار الاحیاء)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں