بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قعدے سے معذور ہونے کی صورت میں کرسی پر نماز کا حکم


سوال

میرا گھٹنے کا آپریشن 27ستمبر 2021کو ہوا، جس میں لیزر کے ذریے ٹئیر ریمو کیا گیا اور ڈاکٹر نے 6ہفتے تک زمین پر بیٹھنے سے منع کیا۔ 6ہفتے بعد میں نے نماز کی ادائیگی  کے لیے التحیات میں بیٹھنے کی کوشش کی مگر شدید درد کی وجہ سے نہ کر سکا تب ڈاکٹر نے مزیددو ہفتے نیچے بیٹھنے سے منع کیا۔ دوہفتے  بعد میں نے دوبارہ کوشش کی مگر شدید درد کی وجہ سے کرسی پر ہی نمازوں کو جاری رکھا۔

آپریشن کے تقریباً 3یا 4ماہ بعد میں زمین پر سجدہ تو کر سکتا تھا مگر دو سجدوں کے درمیان بیٹھ نہیں  سکتا تھا۔ اب ایک ہفتے سے میں نے زمین پر نماز پڑھنا شروع کی ہے مگر دو سجدوں کے درمیان تکلیف کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں اور التحیات  میں نہیں بیٹھ سکتا۔ التحیات میں آپریشن والی ٹانگ لمبی کر لیتا ہوں ۔

سوال  میرا یہ  ہے کہ آپریشن کے دو ماہ یا 4ماہ بعد میری کرسی پر نمازیں قبول ہوں گی یا مجھے قضا  کرنی ہوں گی؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص قیام اور سجدہ  پر قادر ہو،  اس کے لیے کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے رکوع وسجدہ کرکے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھڑے ہوکر نماز شروع کرکے باقاعدہ رکوع اور سجدہ کرکے نماز ادا کرے،   البتہ اگر یہ شخص زمین پر سنت کے مطابق قعدہ میں بیٹھنے سے معذور ہے تو اس کے لیے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ وہ زمین پر ہی جس طرح اسے سہولت ہو قعدہ میں بیٹھ جائے، مثلاً چار زانو ہوکر، یا پاؤں پھیلا کر وغیرہ، لیکن اگر اس سے تکلیف ہو تو  وہ قعدہ  کرسی پر بیٹھ کر ادا کرسکتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں جس عرصے میں آپ بغیر تکلیف کے  قیام اور زمین پر سجدہ کرنے پر قادر تھے لیکن قعدے میں بیٹھنے سے معذور تھے اس عرصے میں قیام اور زمین پر سجدہ کے ساتھ نماز کی ادائیگی لازم تھی، البتہ قعدے میں جیسے سہولت ہوتی اس طرح بیٹھ جاتے ، یا قعدے کے لیے کرسی کا استعمال کرلیتے، اس عرصے میں مکمل طور پر کرسی پر اشارے سے ادا کی گئی نمازیں درست نہیں ہیں، ان نمازوں کا اعادہ لازم ہے ۔ 

فتاوی شامی  میں  ہے:

"(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطاً بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعداً) وهو أفضل من الإيماء قائماً؛ لقربه من الأرض، (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوماً (ولا يرفع إلى وجهه شيئاً يسجد عليه) فإنه يكره تحريماً (فإن فعل) بالبناء للمجهول ذكره العيني (وهو يخفض برأسه لسجوده أكثر من ركوعه صح) على أنه إيماء لا سجود إلا أن يجد قوة الأرض (وإلا) يخفض (لا) يصح؛ لعدم الإيماء.(قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعداً يومئ؛ ولوصلى قائماً بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربةً بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود. اهـ. قال في البحر: ولم أر ما إذا تعذر الركوع دون السجود غير واقع اهـ أي لأنه متى عجز عن الركوع عجز عن السجود نهر. قال ح: أقول على فرض تصوره ينبغي أن لا يسقط؛ لأن الركوع وسيلة إليه ولايسقط المقصود عند تعذر الوسيلة، كما لم يسقط الركوع والسجود عند تعذر القيام.... (قوله: أومأ قاعداً)؛ لأن ركنية القيام للتوصل إلى السجود فلا يجب دونه ... (قوله: لقربه من الأرض) أي فيكون أشبه بالسجودمنح.
(قوله: إلا أن يجد قوة الأرض) هذا الاستثناء مبني على أن قوله: ولا يرفع إلخ شامل لما إذا كان موضوعاً على الأرض وهو خلاف المتبادر، بل المتبادر كون المرفوع محمولاً بيده أو يد غيره، وعليه فالاستثناء منقطع لاختصاص ذلك بالموضوع على الأرض، ولذا قال الزيلعي: كان ينبغي أن يقال إن كان ذلك الموضوع يصح السجود عليه كان سجوداً وإلا فإيماء اهـ وجزم به في شرح المنية. واعترضه في النهر بقوله وعندي فيه نظر؛ لأن خفض الرأس بالركوع ليس إلا إيماء، ومعلوم أنه لا يصح السجود بدون الركوع ولو كان الموضوع مما يصح السجود عليه. اهـ.
أقول: الحق التفصيل وهو أنه إن كان ركوعه بمجرد إيماء الرأس من غير انحناء وميل الظهر فهذا إيماء لا ركوع، فلا يعتبر السجود بعد الإيماء مطلقاً وإن كان مع الانحناء كان ركوعاً معتبراً حتى إنه يصح من المتطوع القادر على القيام. فحينئذٍ ينظر إن كان الموضوع مما يصح السجود عليه كحجر مثلاً ولم يزد ارتفاعه على قدر لبنة أو لبنتين فهو سجود حقيقي فيكون راكعاً ساجداً لا مومئاً حتى إنه يصح اقتداء القائم به وإذا قدر في صلاته على القيام يتمها قائماً، وإن لم يكن الموضوع كذلك يكون مومئاً فلايصح اقتداء القائم به، وإذا قدر فيها على القيام استأنفها بل يظهر لي أنه لو كان قادراً على وضع شيء على الأرض مما يصح السجود عليه أنه يلزمه ذلك؛ لأنه قادر على الركوع والسجود حقيقةً، ولايصح الإيماء بهما مع القدرة عليهما بل شرطه تعذرهما، كما هو موضوع المسألة. (قوله: وإلا يخفض) أي لم يخفض رأسه أصلاً بل صار يأخذ ما يرفعه ويلصقه بجبهته للركوع والسجود أو خفض رأسه لهما، لكن جعل خفض السجود مساوياً لخفض الركوع لم يصح؛ لعدم الإيماء لهما أو للسجود."

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المریض ،ج:۲،ص:۹۷،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100980

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں