بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

قادیانی کے ساتھ کاروبار کرنے والے سے چندہ لینے کا حکم/ تجارتی سامان بارڈر پار کرانے کی اجرت لینے کا حکم


سوال

1۔ اگر کوئی مسلمان قادیانیوں کے ساتھ کاروبار کرتاہے، اس کے ساتھ دوسرا کا روبار بھی ہے، لیکن اس کا قادیانیوں کے ساتھ  کاروبار  90 فیصد ہے اور دوسرا کاروبار 10 فیصد ہے تو ا س بندے سے مدرسہ کے لیےچندہ لینا، اس کے صدقات وخیرات کو قبول کرنا،اس کی دعوت کھانا کیساہے؟

2۔ اگر کوئی شخص مذکورہ کاروبار کرتاہے کہ مثلاً زید کا دس لاکھ کا مال ہے، لیکن وہ مال بغیر ٹیکس کے الاؤڈ نہیں ہے، جیسے انڈیا کی ادویات،سگریٹ، ایرانی پیٹرول وغیرہ ،عمرو  زید  سے کہتاہے کہ میں یہ تمہارامال فلاں جگہ ذمہ داری کے ساتھ پہنچادوں گا، پچاس ہزار کے بدلے، پھر عمرو بیس ہزار حکومت کو بطور ِرشوت دیتا ہے اور تیس ہزار اپنے پاس رکھتاہے،عمرو کا اس کے علاوہ اور کوئی کاروبار نہیں ہے،توا ب پوچھنایہ ہے کہ عمرو کا تیس ہزار کا اپنے بچوں پر خرچ کرنا،مدرسے کو چندہ دینا،مسجد میں استعمال کرنا کیساہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ  زید  کی کمائی کیسی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم  ترین عقیدہ ’’ختم نبوت کا عقیدہ ‘‘ ہے، جس پرتمام مسلمانان ِ عالم کا اتفاق ہے اور جو شخص اس عقیدے کامنکرہو وہ کافر اور زندیق ہے اور ایسے شخص سے میل جول ، لین دین اور تعلقات رکھنا ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ ساتھ غیرتِ ایمانی  اوررسول اللہ ﷺ سےمحبت کے بھی منافی ہے ، اس لیےکہ ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بدترین قسم’’ زندیق ‘‘قرار دیتی ہے، قادیانی نہ صرف اس عقیدے(عقیدہ ختم نبوت) کے منکر ہیں، بلکہ خود کو مسلمان کہلاتے اور اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں،  اس لیے ان سے بدرجہ اولیٰ قطع تعلق کا حکم ہے،لہٰذا مذکورہ شخص کا قادیانیوں کے ساتھ کاروبار کرنا ناجائز اور حرام ہے  اور  اس بنا پر (  جب کہ اکثریت اس کی کمائی ناجائز ہے)جان بوجھ کر  اس شخص سے مدرسے کے لیے چندہ لینا اور اس کے صدقات و خیرات کو قبول کرنا  اور اس کی دعوت کھاناناجائز ہے،اس سے اجتناب کیاجائے۔

2۔ صورت مسئولہ میں  اگر  زید عمرو سے جائز اشیاء کی  منتقلی کراتاہےاور عمر و  یہ جائز اشیاءایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتاہےتو زید اور عمر وکا یہ معاملہ شرعاً درست ہے،اس لیے زید کی کمائی بھی حلا ل ہے اور عمرو کی کمائی بھی حلال ہے،اب چاہے وہ اس کمائی کو اپنے اوپر خرچ کرے یا کسی دینی کام میں لگائے درست ہے۔البتہ عمرو حکام کو جو رشوت دے رہا ہے،یہ ناجائز اور حرام ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وفي هذه الآية دلالة على أنه لاتجوز الاستعانة بأهل الذمّة في أمور المسلمين من العمالات والكتبة."

 (آل عمران: 118، ج: 2، ص: 47، ط: دار الكتب العملمية بيروت)

وفيه أيضاً:

"فيه نهي عن الاستنصار بالمشركين؛ لأن الأولياء هم الأنصار."

(ج: 2، ص: 559، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:7، ص: 259، ط: دارالکتب العلمیة) 

فتح القدیر میں ہے:

"(الأجرة لا تجب بالعقد وتستحق بأحد معان ثلاثة: إما بشرط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط،أو باستيفاء المعقود عليه."

(كتاب الإجارة، ج: 9، ص: 67، ط: شركة مكتبة)

کفایت المفتی میں ہے:

'ہاں اگردین کوفتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہوں تو(قادیانیوں سے )قطع تعلق کرلیناچاہیئے،ان سے رشتہ ناتاکرناان کے ساتھ خلط ملط رکھناجس کادین اورعقائدپراثرپڑے ناجائزہے۔"

(ج: 1، ص: 325، ط: دار الاشاعت)

احسن الفتاوی میں ہے:

’’ایسا شخص جو صوم صلوٰۃ کا پابند ہے، لیکن اس کے تعلقات قادیانی جماعت کے ساتھ ہیں، اگر وہ دل سے بھی ان کو اچھا سمجھتا ہو، تو وہ مرتد ہے اور بلا شبہ خنزیر سے بدتر ہے ، اس سے تعلقات رکھنا ناجائزہے ، اگر وہ مسجد کے  لیے چندہ دیتا ہے تو اسے وصول کرنا جائز نہیں ۔ اور اگر وہ قادیانیوں کے عقائد سے متفق نہیں اور نہ ہی ان کو اچھا سمجھتا ہے ، بلکہ صرف تجارت وغیرہ ، دنیوی معاملات کی حد تک ان سے تعلق رکھتاہے، تو یہ شخص مرتد نہیں ، البتہ بہت سخت مجرم اور فاسق ہے ۔ قادیانی زندیق ہیں جن کا حکم عام مرتد سے بھی زیادہ سخت ہے ، مرتد اور اس کا بیٹا اپنے مال کے مالک نہیں ، لہذا ان کی بیع وشراء ، اجارہ و استجارہ ، ہبہ کا لین دین وغیرہ کوئی تصرف بھی صحیح نہیں ، البتہ پوتے نے جو مال خود کمایا ہو وہ اس میں تصرف کرسکتا ہے ، مگر زندیق کا پوتا بھی اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں اور اس کے تصرفات نافذ نہیں ، اس لئے قادیانی سے کسی ذریعہ سے بھی کوئی مال لیا تو وہ حلال نہیں ۔تجارت وغیرہ معاملات کے علاوہ بھی قادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی میل جول رکھنا جائز نہیں ۔ اس میں یہ مفاسد ہیں :اس میں قادیانیوں کے ساتھ تعاون ہے ،اس قسم کے معاملات میں عوام قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگتے ہیں ،اس طرح قادیانیوں کو اپنا جال پھیلانے کے مواقع ملتے ہیں ،اس لئے قادیانیوں سے لین دین اور دیگر ہر قسم کے معاملات میں قطع تعلق ضروری ہے ان سے تعلقات رکھنے والا آدمی اگر چہ ان کو برا سمجھتا ہو قابل ملامت ہے ، ایسے شخص کو سمجھانا دوسرے مسلمانوں پر فرض ہے ، واللہ تعالی اعلم۔‘‘

(کتاب الایمان والعقائد،قادیانیوں سے تعلق رکھنے کا حکم ،ج:1،ص:46،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں