بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی کی دکان سے سستا سودا خریدنا جائز نہیں


سوال

ہمارے پاس جوہرآباد میں کریانہ کی بہت سی دکانیں ہیں لیکن جو قادیانیوں کی دکان ہے اس پہ ریٹ بہت کم ہیں اگر 7000 کا سودا کسی اور کریانہ سٹور سے لیں تو قادیانیوں والی دکان سے لیں تو 6000 تک مل جاتا ہے اور چیز بھی خالص ہوتی ہے،  اس صورت میں کیا اس دوکان سے سستا سودا خریدا جا سکتا ہے ؟ اگر نہیں ، تو پھر ہم جو موبائل استعمال کرتے ہیں ، اور بہت ساری چیزیں انگریزوں اور یہودیوں کی بنی ہوئی استعمال کرتے ہیں کیا وہ استعمال کرنا جائز ہیں ۔ حتی کہ انٹر نیٹ بھی ۔ براہِ کرم تفصیل سے رہنمائی فرمائیں

جواب

صورتِ مسئولہ میں   قادیانیوں والی دکان سے سستا سودا خریدنا جائز نہیں ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ قادیانی چوں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکا  دینے کی کوشش کرتے ہیں،    جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے،  جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے، بلکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان اور مرزا قادیانی کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار دیتے ہیں، اس لیے ان ان کا معاملہ غیرمسلموں سے جدا اور  سخت  ہے اور ان سے زندگی کے ہرمعاملات میں تعلق قائم کرنے سے احتراز ضروری ہے اور ان  سے  کسی بھی طرح کا  لین دین جائز نہیں ہے  ۔

دوسرےغیرمسلموں سے کاروبار اس وجہ سے جائز ہےکہ وہ اپنےآپ کو غیر مسلم تسلیم کرتے ہے ، قادیانیوں کی طرح منکر اور  غدار نہیں ہیں ،جو اپنےآپ کو غیر مسلم بھی تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی مسلمان ان سے دھوکا  کھاسکتا ہے؛کیوں  کہ ان کی ہیئت بالکل واضح ہے  خود آپﷺ نے بھی غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کی ہے، البتہ غیرمسلموں کےساتھ بھی کاروبار اس وقت درست ہے کہ مسلمان کا دینی لحاظ سے بھی کوئی نقصان نہ ہو اور مسلمانوں کی طاقت وقوت بھی اس سے متاثر نہ ہوتی ہو اور کاروبار میں شرعی اصولوں کالحاظ رکھاجاتاہو اور  جو چیزیں ابھی تک مسلمانوں نے ایجاد نہیں کی اور وہ چیزیں اس زمانے میں ضروری ہے تو وہ چیزیں مجبوراً غیر مسلم انگریزوں سے خریدنا جائز ہے۔

کفا یت  المفتی میں ہے:

"اگر دین کو فتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہو تو(قادیانیوں سے ) قطع تعلق کرلینا چاہئے، ان سے رشتہ ناتا کرنا، ان کے ساتھ خلط ملط رکھنا، جس کا دین اورعقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے"۔

:1، ص:365،ط: دارالاشاعت)

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعة رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

" و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

 

(المسوی شرح المؤطا،ج:،ص:13)

الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (تفسیرِ زمخشری) میں ہے:

"وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ. (113)

قرئ: ولا تركنوا، بفتح الكاف وضمها مع فتح التاء. وعن أبى عمرو: بكسر التاء وفتح الكاف، على لغة تميم في كسرهم حروف المضارعة إلا الياء في كل ما كان من باب علم يعلم. ونحوه قراءة من قرأ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ بكسر التاء. وقرأ ابن أبى عبلة: ولا تركنوا، على البناء للمفعول، من أركنه إذا أماله، والنهى متناول للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومدّ العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم".

(سورة الهود، رقم الآية:113، ج:2، ص:433، ط:دارالكتاب العربى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں