ایک شخص جو کہ بولنے پر قادر ہے اور اس کی بیوی اس کے پاس بیٹھی ہوئی ہے، چنانچہ وہ شخص لکھ کر اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے کہ” میں مسماۃ زبیدہ کو تین طلاقیں دیتاہوں“ زبان سے کچھ بھی نہیں بولتا۔ کیا اس طرح قادر الکلام شخص کا اپنی حاضر بیوی کو طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے؟
علامی شامی کی عبارت ”وظاهره أن المعنون من الناطق الحاضر غير معتبر.“ سے، فتاوی محمودیہ، فتاوی قاسمیہ اور کتاب النوازل میں حاضر بیوی کو لکھ کر طلاق دینے سےمتعلق فتاوی میں عدمِ وقوع کا قول واضح ہوتاہے ۔لہذا اس مسئلہ میں اختلاف معلوم ہوتاہےتو آپ حضرات کے دار الافتاء کا موقف کیا ہے؟ راہنمائی فرمائیں اور اس کے بر خلاف قول کے جواب سے بھی آگاہ فرمائیں۔ نیز اس کی وضاحت کردیں کہ کتابت ہر وقت کار گر ہے یا صرف بوقتِ ضرورت کار گر ہے؟
واضح رہے کہ تحریری طلاق کی چند صورتیں ہیں:
(1)۔کتابت مستبینہ : یعنی کسی کاغذ ، دیوار وغیرہ پر ایسی تحریر جو واضح ہو اور باقی رہنے والی ہو، اس کی دو قسمیں ہیں:
کتابت مستبینہ مرسومہ کا حکم یہ ہے كہ وه تلفظ اور نطق کے قائم مقام ہے؛ لہذا اس سے بلا نیت طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ کتابت مستبینہ غیر مرسومہ کا حکم یہ ہے اس سے طلاق اسی صورت میں واقع ہو گی جب کہ شوہر کہے کہ میری نیت بیوی کو طلاق دینے کی تھی۔
( 2)۔کتابت غیر مستبینہ : جو تحریر ظاہر نہ ہو اور پڑھنے میں نہ آئے ، جیسے پانی اور ہوا پر لکھنا ، اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے کسی حال میں طلاق واقع نہیں ہوگی ۔
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:
"اشترط الفقهاء لوقوع الطلاق بالكتابة شرطين:
الشرط الأول: أن تكون مستبينة.
والمقصود أن تكون مكتوبة بشكل ظاهر يبقى له أثر يثبت به، كالكتابة على الورق، أو الأرض، بخلاف الكتابة في الهواء أو الماء، فإنها غير مستبينة ولا يقع بها الطلاق، وهذا لدى الجمهور، وفي رواية لأحمد يقع بها الطلاق ولو لم تكن مستبينة.
الشرط الثاني: أن تكون مرسومة:
قال الحنفية: الكتابة إذا كانت مستبينة ومرسومة يقع الطلاق بها، نوى أو لم ينو، وإذا كانت غير مستبينة لا يقع مطلقا وإن نوى.
أما إذا كانت مستبينة غير مرسومة، فإن نوى يقع، وإلا لا يقع وقيل: يقع مطلقا."
(كلمة طلاق، ج: 29، ص: 24، ط: دار الصفوة)
ہدایہ شرح البدایۃ میں ہے:
"ثم الكتاب على ثلاث مراتب: مستبين مرسوم وهو بمنزلة النطق في الغائب والحاضر على ما قالوا. ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار، وينوي فيه لأنه بمنزلة صريح الكتابة فلا بد من النية. وغير مستبين كالكتابة على الهواء والماء، وهو بمنزلة كلام غير مسموع فلا يثبت به الحكم."
(كتاب الخنثى، ج: 4، ص: 549، ط: دار إحياء التراث العربي)
درر الحكام ميں هے:
"والحاصل أن كل كتاب يحرر على الوجه المتعارف من الناس حجة على كاتبه كالنطق باللسان."
(المقدمة، المقالة الثانية، ج: 1، ص: 69، ط: دار الجيل)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
أن يكتب" هذا كتاب فلان بن فلان إلي فلانة أما بعد فأنت طالق" وفي هذا الوجه يقع الطلاق في الحال، وفي الخانية: وتلزمها العدة من وقت الطلاق، م: وإن قال لم أعن به الطلاق! لم يصدق في الحكم."
(كتاب الطلاق، الباب السادس، ج: 4، ص: 528، ط: مكتبة زكريا)
وفيه أيضاً:
"وفي الخانية: الأخرس إذا كان لا يكتب وله إشارة معروفةفي التصرفات، في القياس لاينفذ شئي من التصرفات كالطلاق، والعتاقِ ونحوه۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعندنا تثبت هذه التصرفات بإشارته المعهودة كما تثبت بكتابته لأنه لايرجي منه العبارةفتقام الإشارة مقام العبارة كما تقام الكتابة مقام العبارة. وفي فتاوي أهل سمرقند: إذا اكره الرجل بالضرب والحبس على أں يكتب طلاق امرأته فكتب "فلانة طالق" لاتطلق. والله أعلم."
(كتاب الطلاق، الفصل السادس، ج: 4، ص: 532، ط: مكتبة زكريا ديوبند)
” کفایت المفتی “ میں ایک تحریری طلاق سے متعلق سوال کے جواب میں ہے:
”سوال:زید کا اور اس کی زوجہ ہندہ کا خانگی امور میں نزاع ہوتا رہتا تھا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ زید تنگ آگیااور غصہ وبے بسی کی حالت میں عورت کے روبرو خط تحریر کرکےہندہ کو دے دیا کہ ہندہ کو تینوں طلاقیں ساتھ دیتاہوں اور اپنے دستخط کرکے ہندہ کو دے دیااور خویش واقارب سے مذاکرۃ کہا کہ میں نے ہندہ کو طلاق دے دی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہےصورتِ مسئولہ میں غصہ اور بے بسی کی حالت میں جو ہندہ کو طلاق دی ہے ، اس سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور عورت کے روبرو ہوتے ہوئے تحریری طلاق معتبر ہے یانہیں؟
جواب: تینوں طلاقیں یکدم دینا ناجائز اور مکروہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس مکروہ فعل کو عمل میں لے آئے تو طلاقیں پڑجاتی ہیں اور شخصِ مذکور خلاف ہدایت عمل کرنے کا مؤاخذہ دار ہو تاہے، تینوں طلاقوں کا پڑجانا اور طلاق مغلظ ہوجانا، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ یعنی چاروں اماموں اور جمہور امتِ محمدیہ کا مذہب ہے، غصہ کی حالت میں طلاق پڑجاتی ہے، لفظِ بے بسی سے کیا مرادہے؟ اگر اس سے مراد اکراہ ہو تو حالتِ اکراہ کی تحریر ی طلاق واقع نہیں ہوتی، بشرط یہ کہ زبان سے تلفظ نہ کیا ہو ، صرف کسی کے جبر واکراہ سے قلم سے لکھ کر دی ہو“۔
(کتاب الطلاق، ج: 8، ص: 187، 188، ط: دارا لاشاعت)
فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
تحریری طلاق زبانی طلاق کی طرح ہے، یعنی جو حکم زبان سے بولنے کا ہے وہی حکم تحریر کا ہے، البتہ حالتِ اکراہ میں یعنی جبراًلکھوانے کی صورت میں جب تک زبان سے طلاق نہ کہے طلاق نہیں ہوتی۔۔۔۔۔الخ۔
(کتاب الطلاق، ج: 8، ص: 310، ط: دار الاشاعت)
ذکر کردہ فقہاء كی عبارات سے واضح ہوجاتا ہے کہ تحریری طلاق جو واضح ہو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، سوائے اکراہ کی صورت میں کہ مکرَہ شخص لکھ کر طلاق دے اور زبان سے طلاق نہ بولے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بولنے پر قادر شخص پاس بیٹھی ہوئی بیوی کو بلا جبر واکراہ یہ الفاظ لکھ کر دے کہ” میں مسماۃ زبیدہ کو تین طلاقیں دیتاہوں“ تو اس طرح لکھنے سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
باقی علامہ شامی كی عبارت "وظاهره أن المعنون من الناطق الحاضر غير معتبر" اس کے جواب سے پہلے اس کے سیاق وسباق کی عبارت پیش کرتے ہیں، پوری عبارت یوں ہے:
ثم اعلم أن هذا في كتابة غير مرسومة أي غير معتادة، لما في التبيين وغيره أن الكتاب على ثلاث مراتب: مستبين مرسوم وهو أن يكون معنونا: أي مصدرا بالعنوان، وهو أن يكتب في صدره من فلان إلى فلان على ما جرت به العادة فهذا كالنطق فلزم حجة. ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغذ لا على الوجه المعتاد فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه لأن الكتابة قد تكون للتجربة ونحوها، وبهذه الأشياء تتعين الجهة وقبل الإملاء بلا إشهاد لا يكون حجة والأول أظهر. وغير مستبين كالكتابة على الهواء أو الماء وهو بمنزلة كلام غير مسموع ولا يثبت به شيء من الأحكام وإن نوى اهـ.
والحاصل أن الأول صريح والثاني كناية والثالث لغو. وبقي صورة رابعة عقلية لا وجود لها وهي مرسوم غير مستبين وهذا كله في الناطق ففي غيره بالأولى،لكن في الدر المنتقى عن الأشباه أنه في حق الأخرس يشترط أن يكون معنونا وإن لم يكن لغائب اهـ. وظاهره أن المعنون من الناطق الحاضر غير معتبر.
مذکورہ پوری عبارت کو پڑھنے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ گونگے کی معنون طلاق (یعنی جس کی ابتداء میں مرسِل اور مرسَل الیہ کا حوالہ ہو ) حاضر کے لیے معتبر ہے، لہذا ناطق کی معتبر نہیں ہونی چاہیے۔ تو اس عبارت میں علامہ شامی نے الدر المنتقی کے حوالہ سے اشباہ کی عبارت پر ایک تجزیہ کیا ہے اور اس کے مفہومِ مخالف کو پیش کرکے چھوڑ دیا ہے ، جزم سے کوئی حکم نہیں لگایا ہے۔ اور ویسے بھی علامہ شامی کے مذکورہ تجزیہ کو صاحبِ تقریراتِ رافعی نے رد کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ "لم يظهر وجه ظهوره من عبارة الاشباه" يعنی اشباه كی عبارت سے اس طرح كا كوئی مفہوم نہیں نکلتا ہے۔
فتاوی محمودیہ ، کتاب النوازل اور فتاوی قاسمیہ میں مجلس میں حاضر بیوی کو لکھ طلاق دینے کی صورت میں طلاق کے عدم وقوع کا جو قول ہے ،ان میں اصل فتاوی محمودیہ ہے اور کتاب النوازل اور فتاوی قاسمیہ نے فتاوی محمودیہ ہی کی پیروی کی ہے، جیسا کہ ان کے حوالہ جات سے واضح ہوتاہے۔
اور صاحبِ فتاوی محمودیہ نے اگر واقعتاً مجلس میں حاضرہ بیوی کی طلاق کو غیر معتبر کہا ہے اور اس میں کاتب سے کوئی سہو نہ ہوئی ہو یا ترتیب نسخ میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے تو انہوں نے اِس مسئلہ کو جس بنیاد پر تعمیر کیا ہے وہ دو ہیں، ایک شامی کی مذکورہ عبارت ، اور دوسری البحرا لرائق کی یہ عبارت "لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية" شامی کی عبارت کا جواب ذکر ہوچکا ہے۔ مذکورہ عبارت کے جواب سے پہلے اس سے پہلے کی عبارت ذکر کرتے ہیں ، پوری عبارت یوں ہے:
"(ويقع طلاق كل زوج عاقل بالغ)۔۔۔۔۔۔(ولو مكرها) أي ولو كان الزوج مكرها على إنشاء الطلاق لفظا.
وقيدنا بالإنشاء لأنه لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ.
وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع اهـ."
(كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 264، ط: دار الكتاب الإسلامي)
تو اس خط کشیدہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ عاقل بالغ شخص كو زبانی طور پر طلاق دينے پر مجبور كيا جائے تو طلاق واقع ہوجائے گی، ليكن اگر لكھ کر طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو طلاق نہیں ہوگی، کیوں کہ عام حالات میں لکھ کر طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے، جس طرح زبانی طلاق کہنے کا حکم ہے، البتہ صرف حالتِ اکراہ میں لکھ کر طلاق دینے سے طلاق نہیں ہوگی، کیوں کہ عام حالات میں اگر انسان لکھ کرطلاق دیتا ہے تو اس کا مقصد طلاق ہی دینا ہوتا ہے، اور اس کو طلاق دینے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اکراہ کی حالت میں لکھ کر طلاق دینے کی صورت میں اس کا مقصد طلاق دینا ہی نہیں ہوتا اور نہ اس کو طلاق کی ضرورت ہوتی ہے، وہ تو صرف جان چھڑانے کے لیے طلاق لکھ دیتا ہے، اس لیے اکراہ کی حالت میں لکھ کر طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
پس معلوم ہوا کہ البحر الرائق کی عبارت" الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا" حاجت سے مراد” ضرورت اور طلاق دینے کا قصد ہے“ اور” یہ حالتِ اکراہ کے ساتھ مقید ہے“ اور عام حالات میں حاجت کا اعتبار نہیں ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ صاحبِ البحرا لرائق نے خود صراحت کی ہے کہ"إذا كانت مستبينة مرسومة وهو بمنزلة النطق في الغائب والحاضر على ما قالوا"یعنی کتابت مستبینہ مرسومہ حاضر اور غائب دونوں کے حق میں نطق کی طرح ہے۔
لہذا اگر کوئی قادر الکلام شخص اکراہ کی حالت کے علاوہ کسی بھی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق لکھ دے اور زبان سے کچھ نہ بولے تو طلاق لکھتے ہی اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی، چاہے اس کی بیوی حاضر ہو یا غائب ہو ۔
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604100685
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن