بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانی سے مینٹینس اور مسجد کے لیے رقم لینا، کافر اور قادیانی سے لین دین کے معاملات رکھنا


سوال

 ہماری کالونی والوں نے کالونی کی اپنی ایک تنظیم بنائی ہے اور کالونی کے ہر گھر سے ایک ہزار روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں لیکن کالونی میں دو گھر قادیانیوں کے ہیں  کیا ان سے مقرر کردہ رقم لینا جائز ہے؟ اور جمع شدہ رقم چوکیداروں اور مسجد کے امام کی تنخواہوں اور کالونی کے دیگر فلاحی کاموں میں صرف کی جاتی ہے۔

اور مسلمانوں کی ناجائز منافع خوری لینے کی وجہ غیر مسلموں اور قادیانیوں سے کاروبار کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بلڈنگ یا کالونی والوں کا مینٹینس وصول کرکے کالونی کی مشترکہ ضرورتوں پر خرچ کرنا جائز ہے،لہذاصورت مسئولہ میں کالونی والوں کا کالونی کے مینٹینس کے لیے ہر گھرسے (مسلمان ہو یا غیر مسلم)  ایک ہزار روپے جمع کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے،البتہ قادیانی چونکہ  مرتد اورزندیق  ہیں اس لیے ان سے کسی قسم کی مالی معاونت حاصل کرنا جائز نہیں،لہذا کالونی کے مشترکہ مینٹینس کے پیسوں کو مسجد کی ضرورتوں (امام  ،مؤذن اور خادموں کی تنخواہ ،مسجد کی بجلی کا بل وغیرہ)میں خرچ  کرنا ممنوع ہے؛ کیوں کہ ان سے مالی معاونت لینے میں انہیں عزت دینا ہے، اور غیر مسلم عزت و احترام کے اہل نہیں ہیں، نیز قادیانی مسجد کے اخراجات کے لیے رقم دے کر عوام الناس میں اپنے آپ کو  مسلمان باور کرا کر سادہ لوح مسلمانوں کی گمراہی کا سبب ہوگا،لہذابہتر یہ ہے کہ عمومی مینٹینس میں   سے قادیانی سے جو چندہ لیا گیا ہے وہ مسجد کے اخراجات میں استعمال نہ کریں۔

2۔عام غیر مسلموں کے ساتھ لین دین کرنا اور ان کے ساتھ تجارتی روابط قائم کرنا  شرعا جائز ہے بشرط یہ ہے کہ اس کاروبار سے مسلمانوں کو دینی یا دنیوی اعتبار سے کسی قسم کا نقصان نہ ہو،البتہ قادیانی   جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ مرتد اور کافر ہیں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنا(چاہے وہ خریدوفروخت کی صورت میں ہو یا کسی اور طرح سے ہو) جائز نہیں ہے۔

جامعہ کے ایک سابقہ فتویٰ (جس پر مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن خان ٹونکی رحمہ اللہ کی تصحیح و تصدیق موجود ہے) میں تحریر ہے:

’’صورتِ مسئولہ میں قادیانی کے لیے امداد دینا بالکل بے کار ہے؛ کیوں کہ قرآنِ پاک میں ہے: ’’اولئك حبطت اعمالهم‘‘ (التوبۃ) اور قادیانی جو کہ کافرِ محارب وموذی ہے اور وہ اپنے آپ کو غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمان سمجھتاہے، اور دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتاہے، اور اس امداد کے ذریعے مسلمانوں کو قادیانیت کی طرف رغبت دلاتاہے؛ اس لیے کسی مسلمان کے لیے اس بے دین قادیانی کی امداد لینا جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اس بے دین قادیانی کی امداد کو قبول کرکے اس بے دین قادیانی کو عزت دینا ہے، اور کافر عزت کے لائق نہیں ہوتا‘‘۔

کتبہ :شفیق الرحمٰن ۔۔الجواب صحیح: ولی حسن،      ابوبکر سعید الرحمٰن

شرح صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:

"الشراء والبيع من الكفار كلهم جائز، ‌إلا ‌أن ‌أهل ‌الحرب لا يباع منهم ما يستعينون به على إهلاك المسلمين من العدة والسلاح، ولا ما يقوون به عليهم."

(كتاب البيوع،باب الشراء والبيع مع المشركين وأهل الحرب،ج6،ص338،ط؛مکتبۃ الرشد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌المرتد ‌إذا ‌باع أو اشترى يتوقف ذلك إن قتل على ردته أو مات أو لحق بدار الحرب بطل تصرفه وإن أسلم نفذ بيعه."

(کتاب البیوع،الباب الثاني عشر في أحكام البيع الموقوف وبيع أحد الشريكين،ج3،ص154،ط؛دار الفکر)

 کفا یت  المفتی میں ہے:

’’اگر دین کو فتنے سے محفوظ رکھناچاہتے ہو تو(قادیانیوں سے ) قطع تعلق کرلینا چاہئے، ان سے رشتہ ناتا کرنا، ان کے ساتھ خلط ملط رکھنا، جس کا دین اورعقائد پر اثر پڑے ناجائز ہے۔‘‘

(ج:1، ص:365،ط: دارالاشاعت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں